سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو، جس کے پاس وصیت کے لائق کچھ مال ہو، یہ جائز نہیں کہ دو شب بھی بغیر اس کے رہے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔“
سیدنا عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی ام المؤمنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم و دینار چھوڑا اور نہ کوئی غلام، نہ کوئی لونڈی نہ اور کوئی چیز سوا اپنے سپید خچر اور ہتھیار کے اور ایک زمین کے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کر دیا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وصیت کی تھی؟ انھوں نے کہا نہیں۔ پوچھا گیا کہ پھر کیونکر وصیت فرض کی گئی یا انھیں کیونکر وصیت کا حکم دیا گیا؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ (پر عمل کرنے) کی وصیت کی تھی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم بحالت صحت جب کہ تمہیں (مال کی) حرص ہو، مالداری کی خواہش ہو، تنگدستی کا خوف ہو، اس وقت صدقہ دو اور صدقہ میں اتنی تاخیر نہ کر دو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تم کہو کہ فلاں شخص کو اس قدر دینا اور فلاں شخص کو اس قدر دینا حالانکہ اب تو وہ فلاں شخص کا (یعنی وارث کا) ہو چکا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور اپنے قریب کے عزیز، رشتہ داروں کو عذاب الٰہی سے ڈراؤ“(شعراء: 216) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”اے گروہ قریش! (یا کوئی اسی قسم کا اور لفظ فرمایا) تم اپنی جانوں کو بچاؤ! میں اللہ (کے عذاب) سے تمہیں بھی نہیں بچا سکتا۔ اے بنی عبد مناف! میں تمہیں اللہ (کے عذاب) سے نہیں بچا سکتا اے عباس بن عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ (کے عذاب) سے نہیں بچا سکتا اور اے صفیہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ (کے عذاب) سے نہیں بچا سکتا اور اے فاطمۃالزہراء بنت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم مجھ سے میرا مال جس قدر چاہو لے لو مگر میں اللہ (کے عذاب) سے تمہیں بھی نہیں بچا سکتا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد (امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اپنا ایک مال (باغ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں خیرات کیا تھا، جس کا نام ثمغ تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ”یا رسول اللہ! میں نے ایک مال پایا ہے اور وہ میرے نزدیک بہت نفیس ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کو خیرات کر دوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اصل درخت کو اس شرط پر خیرات کر دو کہ وہ فروخت نہ کیے جائیں، نہ ہبہ کیے جائیں، نہ ان میں وراثت جاری ہو بلکہ اس کا پھل اللہ کی راہ میں خرچ ہو۔“ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو (اسی شرط پر) خیرات کر دیا اس طرح پر کہ اس کی آمدنی مجاہدین، غلاموں کے آزاد کرانے، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور قرابت والوں میں (خرچ کی جاتی) تھی اور (انھوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ) جو شخص اس کا متولی ہو اسے کچھ گناہ نہیں کہ دستور کے موافق کھا لے یا اپنے دوست کو کھلا دے بشرطیکہ وہ اس فعل سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات تباہ کرنے والے گناہوں سے بچے رہو۔“ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(1) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (2) اور جادو کرنا (3) اور اس جان کا ناحق مارنا جس کو اللہ نے حرام کیا ہے (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) جنگ سے بھاگنا (7) پاکدامنہ، بےخبر مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے وارث نہ دینار تقسیم کریں نہ درہم، جو کچھ میں اپنی بیبیوں کے خرچ اور اپنی جائداد کے اہتمام کرنے والے کی مزدوری سے فاضل چھوڑوں تو وہ صدقہ ہے۔“
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب محاصرہ میں آ گئے تو وہ بلندی پر چڑھ کر باغیوں کے سامنے آئے اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور یہ قسم میں صرف اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہوں کہ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص رومہ (نامی) کنواں خرید لے (اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا) اسے جنت ملے گی۔“ تو میں نے اسے خریدا (اور وقف کر دیا) کیا تم نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جو شخص غزوہ تبوک میں مجاہدین کو سامان جنگ مہیا کر دے۔ اسے جنت ملے گی۔“ تو میں نے سامان مہیا کر دیا۔ (راوی) کہتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔
8. اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المائدہ میں یہ) فرمانا: ”اے مسلمانو! جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے یا تمہارے غیروں میں سے دو معتبر شخص گواہ ہونے چاہئیں .... اور اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“ کا بیان۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ سفر کو نکلا۔ پھر وہ ایسی سرزمین میں فوت ہوئے کہ وہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ جب تمیم اور عدی رضی اللہ عنہ اس کا ترکہ لائے تو چاندی کا ایک گلاس جس میں سنہری نقش تھے کھو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم دی اور انھوں نے قسم کھا لی۔ اس کے بعد وہ گلاس مکہ میں جن کے پاس ملا انھوں نے کہا کہ ہم نے اس کو تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ پھر دو شخص میت کے اعزہ میں سے کھڑے ہو گئے اور انھوں نے قسم کھائی کہ ہماری شہادت بہ نسبت ان دونوں کی شہادت کے زیادہ قابل قبول ہے ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ پیالہ ہمارے (مرنے والے) عزیز کا ہے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ یہ آیت انہی کے حق میں نازل ہوئی: ”اے مسلمانو! جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو وصیت کے وقت دو انصاف والے تم میں سے یا تمہارے غیروں میں گواہ ہونے چاہئیں .... آخر آیت تک۔“