سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں سے برابر سوال کیا کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی کوئی بوٹی نہ ہو گی۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن آفتاب قریب ہو جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا پس سب لوگ اس حالت میں ہوں گے کہ یکایک وہ آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسکین وہ شخص نہیں ہے جس کو لوگ ایک لقمہ یا دو لقمہ یا ایک کھجور یا دو کھجور دے دیں (یعنی ایک ایک لقمہ اور دو دو لقمہ لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھرے) بلکہ مسکین وہ شخص ہے جسے غنا (حاصل) نہ ہو اور وہ شرم کرتا ہو اور لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرتا ہو۔“
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کیا ہے پس جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) وادی قریٰ میں پہنچے تو (کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک عورت اپنے باغ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”اندازہ لگاؤ (اس کے باغ میں کس قدر کھجوریں ہیں)۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق اندازہ کیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”خیال رکھو کہ اس میں سے کس قدر کھجوریں نکلتی ہیں“ پھر جب ہم (مقام) تبوک میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات کو سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے ہمراہ اونٹ ہو وہ اسے باندھ دے۔“ چنانچہ ہم لوگوں نے اونٹوں کو باندھ دیا اور سخت آندھی چلی۔ ایک شخص (اتفاق سے) کھڑا ہو گیا اس کو آندھی نے طییء (نامی) پہاڑ پر پھینک دیا اور (اسی جنگ میں ملک) ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سفید خچر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوڑھنے کے لیے ایک چادر بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وہاں کے ملک پر برقرار رکھا پھر جب (اختتام جنگ کے بعد) لوٹے اور وادی قریٰ میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا: ”تمہارے باغ میں کس قدر کھجور پیدا ہوئی؟“ تو اس نے عرض کی کہ دس وسق، یہی اندازہ فرمایا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مدینہ جلد پہنچنا چاہتا ہوں لہٰذا تم میں سے جو شخص بہ عجلت میرے ہمراہ چل سکے وہ جلدی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ”طابہ“ آ گیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کو دیکھا تو فرمایا: ”یہ وہ پہاڑ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے اور ہم اسے دوست رکھتے ہیں۔ کیا میں تم لوگوں کو انصار کے گھروں میں سے اچھے گھروں کی خبر دوں؟“ صحابہ نے عرض کی کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی نجار کے گھر پھر بنی عبدالاشہل کے گھر پھر ساعدہ کے گھر یا (یہ فرمایا کہ) بنی حارث بن خزرج کے گھر اور (یہ گھر بہت زیادہ اچھے ہیں ورنہ یوں تو) انصار کے سب گھروں میں اچھائی ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز کو آسمان کا پانی یعنی بارش سینچے اور چشمے سینچیں یا خودبخود پیدا ہو اس میں عشر (دسواں حصہ) واجب ہوتا ہے اور جو چیز کنویں کے پانی سے سینچی جائے اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں کٹتے ہی آنے لگتیں، کبھی یہ شخص اپنی کھجوریں لیے آ رہا ہے کبھی وہ اپنی کھجوریں لیے آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ کھجوروں کے انبار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لگ جاتے تھے۔ (ایک دن) حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ان کھجوروں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ ان دونوں میں سے کسی نے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں رکھ لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس پر پڑی اور (فوراً) وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور فرمایا: ”کیا تم نہیں جانتے کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاتے۔“
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) میں نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا سواری کے لیے دیا تو جس شخص کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے اس کی کچھ قدر نہ کی۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کو خرید لوں (کیونکہ) میں نے یہ خیال کیا تھا کہ وہ اس کو سستا فروخت کر دے گا لہٰذا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نہ خریدو اگرچہ تمہیں وہ ایک درھم کا ہی کیوں نہ دے بیشک اپنے صدقہ کا واپس کر لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی قے کا کھانے والا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مری ہوئی بکری دیکھی جو ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی کسی لونڈی کو صدقہ میں دی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی کھال سے کیوں نہیں فائدہ اٹھاتے؟“ تو لوگوں نے عرض کی کہ وہ تو مری ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ گوشت لایا گیا جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ گوشت) بریرہ (رضی اللہ عنہا) کے لیے صدقہ تھا اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث اور ان کو یمن بھیجنے کی بات کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے (دیکھئیے باب: زکوٰۃ کا واجب ہونا شریعت سے ثابت ہے۔۔۔)۔ یہاں اس روایت میں یہ ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا):“(اے معاذ!) تم انہیں یہ بھی بتا دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو مالداروں سے لے کر غریبوں پر صرف کی جائے گی۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات بھی تسلیم کر لیں تو پھر تم ان کے عمدہ عمدہ مال (زکوٰۃ کی شکل میں) وصول نہ کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس (کی بددعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔“
سیدنا عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ: ”اے اللہ! فلاں شخص کی اولاد پر مہربانی فرما۔“ چنانچہ ایک مرتبہ میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابی اوفی کی اولاد پر مہربانی فرما۔“