سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج گرہن ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور (جلدی میں) اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہوئے۔ پھر ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آفتاب اور ماہتاب کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے ہیں اور جب یہ کیفیت دیکھا کرو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو، یہاں تک کہ وہ حالت جاتی رہے۔“ ایک اور روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے۔“ حدیث گرہن کئی بار بیان کی گئی ہے، اسی طرح کی ایک حدیث میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا، جس دن کہ سیدنا ابراہیم (فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وفات ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابراہیم کی وفات کے سبب سے سورج گرہن ہوا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند نہ کسی کے مرنے سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کے جینے سے لہٰذا جب تم (گرہن کو) دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (ایک مرتبہ) سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور (نماز میں) بہت طویل قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ پھر (رکوع کے بعد) قیام کیا تو بہت طویل قیام کیا اور پہلے قیام سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا اور پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور بہت طویل سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی کے مثل کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا اس کے بعد نماز مکمل کی اور اس وقت تک آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”آفتاب اور ماہتاب اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، نہ کسی کے مرنے سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی سے۔ پس تم جب اسے دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور نماز پڑھو اور صدقہ دو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے امت محمد! اللہ کی قسم! اللہ سے زیادہ کوئی اس بات کی غیرت نہیں رکھتا کہ اس کا غلام یا اس کی لونڈی زنا کرے۔ اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم لوگ ان باتوں کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم اور رونا بہت زیادہ آئے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو (بن عاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جب سورج گرہن ہوا تو ”الصّلٰوۃ جامعۃ“ کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا۔ (یعنی نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ ان سے (کچھ) دریافت کرنے آئی اور اس نے (بطور دعا کے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے) کہا کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے پناہ دے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب کیا جائے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) گرہن والی حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) لوگوں کو حکم دیا کہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے گرہن کی طویل حدیث ذکر کی پھر کہا کہ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (اس وقت) ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ میں کھڑے کھڑے کوئی چیز اپنے ہاتھ میں پکڑ رہے تھے پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت کو دیکھا تھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف میں نے ہاتھ بڑھایا، اگر میں اسے لے آتا تو تم اسے کھایا کرتے جب تک کہ دنیا باقی رہتی اور (اس کے بعد) مجھے دوزخ دکھائی گئی تو میں نے آج کے مثل کبھی خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے عورتوں کو دوزخ میں زیادہ پایا۔“ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے کفر کے سبب سے۔“ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں اگر تو ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے پھر (اتفاقاً) کوئی بدسلوکی تیری جانب سے دیکھ لے تو (بلاتامل) کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں(ایک مرتبہ) سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوف زدہ ہو کر کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں قیامت نہ آ جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور بڑے لمبے قیام اور رکوع اور سجود کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، اس قدر طویل نماز پڑھتے میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ عزوجل اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، نہ کسی کی موت کے سبب ایسا ہوتا ہے اور نہ کسی کی زندگی کے سبب بلکہ اس کے ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب تم اسے دیکھو تو اللہ کے ذکر کی طرف اور اس سے دعا مانگنے اور اس سے استغفار کرنے کی طرف جھک جاؤ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف میں اپنی قرآت بلند آواز سے کی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قرآت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی پھر رکوع کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو کہا ((سمع اﷲ لمن حمدہ ربّنا ولک الحمد)) اور دوبارہ قرآت کرنے لگے (مگر یہ بات صرف) نماز کسوف یعنی گرہن کی نماز میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ غرض اس نماز میں) دو رکعتوں کے اندر چار رکوع اور چار سجدے کیے۔