سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں یعنی کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور سمع اﷲ لمن حمدہ ربّنا ولک الحمد کہتے اور (دونوں) سجدوں میں یہ (عمل) نہ کرتے تھے۔ نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے)۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں داہنا ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و عمر فاروق رضی اللہ عنہ نماز کی ابتداء ((الحمدللہ رب العالمین)) سے کیا کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرآت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں تکبیر اور قرآت کے مابین سکوت کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (یہ دعا) پڑھتا ہوں ”اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کر دیا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو ڈال۔“
سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا سے مروی، نماز کسوف کے بارے میں حدیث گزر چکی ہے۔ (دیکھئیے حدیث: کتاب: علم کا بیان۔۔۔ باب: جس شخص نے ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دیا۔۔۔)۔ اس روایت میں کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت جنت میرے قریب ہو گئی تھی حتیٰ کہ اگر میں اس پر جرات کرتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تمہارے پاس لے آتا اور دوزخ بھی میرے قریب ہو گئی تھی یہاں تک کہ میں کہنے لگا کہ اے میرے پروردگار! کیا میں ان لوگوں کے ہمراہ (رکھا جاؤں گا؟) پس یکایک ایک عورت پر میری نظر پڑی۔“ مجھے خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو ایک بلی پنجہ مار رہی تھی، میں نے کہا اس کو کیا ہوا؟ تو لوگوں نے کہا کہ اس نے بلی کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی۔ یہ (عورت) نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے (جیسے چوہے وغیرہ کھا لیتی)(نافع کو شک ہے کہ خشیش یا خشاش الارض کہا)۔
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر (کی نماز) میں (کچھ) پڑھتے تھے؟ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ پوچھا گیا کہ آپ کس بات سے اس کی تمیز کرتے تھے؟ تو خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کے ہلنے سے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ اپنی نماز میں اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ پس اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو بہت سخت ہو گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے باز آئیں ورنہ ان کی بینائیاں لے لی جائیں گی۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان کی جھپٹ ہے وہ آدمی کی نماز پر ایک جھپٹ مارتا ہے۔“
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے امیرالمؤمنین عمر فاروق سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو امیرالمؤمنین نے سعد رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا حاکم بنایا، ان لوگوں نے (سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بہت سی) شکایتیں کیں یہاں تک کہ انھوں نے بیان کیا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے تو امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے ابواسحاق! (سعد رضی اللہ عنہ کی یہ کنیت ہے) یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو انھوں نے کہا کہ سنو! میں اللہ کی قسم ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مثل نماز پڑھاتا تھا۔ پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا تھا اور اخیر کی دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! تمہاری نسبت ایسا ہی خیال تھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص یا ایک وفد کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کوفہ بھیجا تاکہ وہ کوفہ والوں سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھیں (چنانچہ وہ گئے) اور انھوں نے کوئی مسجد نہیں چھوڑی کہ جس میں سعد رضی اللہ عنہ کی کیفیت نہ پوچھی ہو اور سب لوگ ان کی عمدہ تعریف کرتے رہے، یہاں تک کہ بنی عبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا، اس کو اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور اس کی کنیت ابوسعدہ تھی، اس نے کہا جب تم نے ہمیں قسم دلائی تو (مجبور ہو کر میں کہتا ہوں) کہ سعد (رضی اللہ عنہ) لشکر کے ہمراہ (جہاد کو خود) نہ جاتے تھے اور (غنیمت کی) تقسیم برابر نہ کرتے تھے اور فیصلے میں انصاف (بھی) نہیں کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) کہنے لگے کہ دیکھ میں تین بددعائیں تجھ کو دیتا ہوں اے اللہ! اگر یہ بندہ جھوٹا ہو اور نمود و نمائش کے لیے (اس وقت) کھڑا ہوا ہو تو اس کی عمر بڑھا دے اور اس کی فقیری بڑھا دے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کر دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اور اس کے بعد جب اس سے (اس کا حال) پوچھا جاتا تھا تو کہتا کہ ایک بڑی عمر والا بوڑھا ہوں، فتنوں میں مبتلا، مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اب اس حال میں دیکھا ہے اس کی دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر بڑھاپے کے سبب سے جھکی پڑی ہیں، وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیڑتا ہے اور ان پر دست درازی کرتا ہے۔