ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت مرض اپنے گھر میں نماز پڑھی، پہلے گزر چکی ہے اور اس روایت میں کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“(لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا تھا دیکھئیے باب: مریض کو کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے؟)
سیدنا براء (بن عازب رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ اس وقت تک نہ جھکاتا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں نہ چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم لوگ سجدے میں جاتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے، تو کیا وہ اس بات کا خوف نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا (سا) سر بنا دے یا اس کی صورت گدھے کی (سی) صورت کر دے؟“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! اطاعت کرو! اگرچہ کوئی حبشی (تم پر) حاکم بنا دیا جائے اور جس کا سر سوکھے انگور کے برابر ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ جو تمہیں نماز پڑھاتے ہیں اگر ٹھیک پڑھائیں گے تو تمہارے لیے ثواب ہے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو تمہارے لیے تو ثواب ہی ہے اور ان پر گناہ ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کہ ایک شب وہ اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرے تھے، گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: وضو کا بیان۔۔۔ باب: وضو ٹوٹنے کے بعد (بغیر وضو کیے) قرآن کی تلاوت کرنا۔۔۔) اور اس روایت میں فرماتے ہیں کہ ”پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی۔ اس کے بعد مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا کی اور وضو نہیں کیا۔ (اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ذکر ہے)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (عشاء) کی نماز پڑھتے اس کے بعد واپس جاتے تو اپنی قوم کی امامت کرتے (ایک مرتبہ) انھوں نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورۃ البقرہ پڑھی۔ ایک شخص (نماز توڑ کر) چل دیا تو اس سے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو بڑا دکھ ہوا۔ یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے تین مرتبہ فرمایا: ”فتان، فتان، فتان“(فتنہ ڈالنے والا) یا یہ فرمایا: ”فاتن، فاتن، فاتن“(یعنی فتنہ پرداز) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو اوسا مفصل کی دو سورتوں (کے پڑھنے) کا حکم دیا۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں صبح کی نماز سے صرف فلاں شخص کے باعث پیچھے رہ جاتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں نماز لمبی پڑھاتا ہے۔ پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نصیحت (کے وقت) اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کچھ لوگ (آدمیوں کو عبادت سے) نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو شخص تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو چاہیے کہ وہ تخفیف کیا کرے کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف (بھی ہوتے) ہیں اور بوڑھے بھی اور صاحب حاجت (بھی)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ(کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے دیکھئیے باب: جب امام (نماز کو) طول دے اور کسی شخص کو کچھ ضرورت ہو اور وہ (نماز توڑ کو) چلا جائے (اور کہیں اور) نماز پڑھ لے) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تو نے ((سبّع اسم ربّک الا علٰی))(اور)((والشّمس وضحٰھا)) اور ((والّیل اذا یغشیٰ)) کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھا دی؟