ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور مرض بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ میرے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کی جائے تو سب نے اجازت دے دی .... بقیہ وہی جو ابھی گزشتہ (دیکھیں کتاب: اذان کا بیان۔۔۔ باب: مریض کی کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے؟) میں بیان ہوا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ بارش والے دن میں جمعہ کا خطبہ پڑھا اور مؤذن کو جب وہ ”حیّ علی الصّلاۃ“ پر پہنچا، یہ حکم دیا کہ کہہ دے ”الصّلاۃ فی الرّحال“(اپنی اپنی جگہ پر نماز ادا کر لو) تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے گویا کہ انھوں نے (اس کو) برا سمجھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اس کو برا سمجھا ہے تو بیشک اس (عمل) کو اس نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، بیشک جمعہ واجب ہے اور مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ تمہیں حرج میں ڈالوں (کہ تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے آؤ)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں (معذور ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز نہیں پڑھ سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا پس اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مکان میں بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چٹائی بچھا دی اور چٹائی کے ایک کنارے کو دھو دیا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ اتنے میں آل جارود میں سے ایک شخص نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھا کرتے تھے؟ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سوائے اس دن کے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے نہیں دیکھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا آگے رکھ دیا جائے تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنے کھانے کو چھوڑ کر نماز میں عجلت نہ کرو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ وہ بولیں کہ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والوں کی خدمت میں (مصروف) رہتے تھے پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں اور میرا مقصود نماز پڑھنا نہیں بلکہ جس طرح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح (تمہارے دکھانے کو) پڑھتا ہوں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“ پہلے گزر چکی ہے (دیکھیں باب: مریض کو کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے؟) اور اس روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ بیشک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قرآت) نہ سنا سکیں گے لہٰذا آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قرآت) نہ سنا سکیں گے۔ پس حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہہ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو! یقیناً تم لوگ یوسف علیہ السلام کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو۔“ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ تو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے کبھی تم سے فائدہ نہ پایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی، لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے یہاں تک کہ جب دو شنبہ کا دن ہوا اور لوگ نماز میں صف بستہ تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور ہم لوگوں کی طرف کھڑے ہو کر دیکھنے لگے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک گویا مصحف کا صفحہ تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشاشت سے مسکرائے ہم لوگوں نے خوشی کی وجہ سے چاہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے میں مشغول ہو جائیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آئے تاکہ صف میں مل جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے آنے والے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کی طرف ان میں باہم صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن، امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو میں اقامت کہوں؟ انھوں نے کہا ہاں۔ پس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں مشغول تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صفوں میں) داخل ہوئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں جا کر ٹھہر گئے اور لوگ تالی بجانے لگے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو انھوں نے پیچھے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کے اور اس بناء پر کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا اللہ کا شکر ادا کیا پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ گئے، یہاں تک کہ صف میں آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اے ابوبکر! جب میں نے تم کو حکم دیا تھا تو تم کیوں نہ کھڑے رہے؟“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کہ ابوقحافہ کے بیٹے کی مجال نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا سبب ہے کہ میں نے تم کو دیکھا تم نے تالیاں بکثرت بجائیں؟ (دیکھو) جب کسی کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو اسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہہ دے کیونکہ وہ سبحان اللہ کہہ دے گا تو اس کی طرف التفات کیا جائے گا اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے (جائز) ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کی کہ نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو (میں نہاؤں گا)۔“ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بیہوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہوش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟“ ہم نے عرض کی نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو۔ (چنانچہ رکھ دیا گیا) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بیہوش ہو گئے پھر ہوش آیا تو فرمایا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟“ ہم نے عرض کی کہ نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور غسل کیا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بیہوش ہو گئے۔ پھر جب افاقہ ہوا تو پوچھا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کی نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں اور لوگ مسجد میں ٹھہرے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشاء کی نماز کے لئے انتظار کر رہے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس (کہلا) بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ قاصد ان کے پاس پہنچا اور اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے اور وہ ایک نرم دل انسان تھے، کہ اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ تب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان بقیہ دنوں میں نماز پڑھائی۔ باقی حدیث اوپر گزر چکی ہے (دیکھئیے باب: مریض کو کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے؟)