سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائیس درجہ (ثواب میں) زیادہ ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”جماعت کی نماز تم میں سے کسی کی تنہا نماز سے پچیس درجے (ثواب میں) زیادہ ہے اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں یکجا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: ”یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے، (یعنی فرشتے حاضر ہوتے ہیں)۔“(بنی اسرائیل: 78)
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں سے باعتبار ثواب نماز کے زیادہ وہی لوگ ہیں جن کی مسافت (مسجد سے) دور ہے، پھر جن کی ان سے دور ہے اور وہ شخص جو نماز کا منتظر رہے حتیٰ کہ اس کو امام کے ہمراہ پڑھے، باعتبار ثواب کے اس سے زیادہ ہے (جو جلدی سے) نماز پڑھ کے سو جاتا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کسی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ (پڑی ہوئی) دیکھی تو اس کو ہٹا دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو معاف کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید پانچ لوگ ہیں جو طاعون میں مرے اور جو پیٹ کے مرض میں مرے اور جو ڈوب کر مرے اور جو دب کر مرے اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہو۔“ باقی حدیث گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: اذان کا بیان۔۔۔ باب: اذان کے بارہ میں قرعہ ڈالنا۔۔۔)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی سلمہ نے یہ چاہا کہ اپنے مکانوں سے اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کہیں قیام کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو برا سمجھا کہ مدینہ کو ویران کر دیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی سلمہ! کیا تم اپنے قدموں (سے چل کر مسجد میں آنے) میں ثواب نہیں سمجھتے؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نماز منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ گراں نہیں گزرتی اور اگر وہ یہ جان لیں کہ ان دونوں (کے وقت پر پڑھنے) میں کیا (ثواب) ہے تو ضرور ان میں آئیں اگرچہ گھٹنوں کے بل (چل کر) آنا پڑے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات (قسم کے) آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا کہ جس دن سوائے اللہ کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (1) عادل حاکم اور (2) وہ نوجوان جو اپنے پروردگار کی عبادت میں (بچپن سے) بڑا ہوا ہو (3) وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو (4) وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے (5) وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت (زنا کے لیے) بلائے وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں (اس لیے نہیں آ سکتا)(6) وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ اس کا داہنا ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے۔ (7) وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں (آنسوؤں سے) تر ہو جائیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح شام (دونوں وقت) مسجد میں جائے، اللہ اس کے لیے جنت سے اس کی مہمانی مہیا کرے گا جب بھی صبح و شام کو جائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے جو کہ قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے، روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دو (2) رکعت نماز پڑھتے دیکھا حالانکہ اقامت ہو چکی تھی پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو لوگ اس شخص کے گرد جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: ”کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں، کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، مبتلا ہوئے اور نماز کا وقت آیا اور اذان ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود عرض کی) کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو (شدت غم سے) وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن پھر وہی عرض کی گئی۔ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حکم فرمایا اور فرمایا: ”تم تو یوسف علیہ السلام کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ چنانچہ (کہہ دیا گیا اور) ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے چلے گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ میں کچھ افاقہ محسوس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے گویا کہ میں (اب بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ بہ سبب (ضعف) مرض کے زمین پر گھسٹتے ہوئے جاتے تھے۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے گئے یہاں تک کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتداء کرتے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے۔