سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ تو سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بقدر پچاس یا ساٹھ آیات (کی تلاوت) کے (فاصلہ تھا)۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سحری کھایا کرتا تھا پھر مجھے اس بات کی جلدی ہوتی تھی کہ میں فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ادا کروں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے سامنے چند پسندیدہ شخصیات نے کہ ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ میرے نزدیک امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ تھے، یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے، نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے لوگو!) تم اپنی نمازیں طلوع آفتاب کے وقت نہ ادا کرو اور نہ غروب آفتاب کے وقت۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب آفتاب کا کنارا نکل آئے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے اور جب آفتاب کا کنارا چھپ جائے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ (پورا آفتاب) چھپ جائے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کی پوشاک پہننے سے منع فرمایا ہے (اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب: ستر جس کو ڈھانپنا ضروری ہے) اس حدیث میں اتنا زیادہ کہا ہے: ”اور دو نمازوں سے منع فرمایا: (1) فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ آفتاب (اچھی طرح) نکل آئے اور (2) عصر کے بعد (نماز سے منع فرمایا) یہاں تک کہ آفتاب (اچھی طرح) غروب ہو جائے۔“
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انھوں نے کہا (اے لوگو!) تم ایک نماز ایسی پڑھتے ہو کہ بیشک ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے پڑھتے نہیں دیکھا اور یقیناً آپ نے اس سے ممانعت فرمائی یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم اس کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے لے گیا کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں ترک نہیں فرمائیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے جا ملے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے جا ملے، اس وقت (جسم بھاری ہونے کا باعث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے بوجھل ہو جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بہت سی نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں (ہمیشہ) پڑھا کرتے تھے اور گھر ہی میں پڑھتے تھے، اس خوف سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر گراں نہ گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی بات پسند فرماتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر آسان ہو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کو پوشیدہ و آشکارا کبھی ترک نہ فرماتے تھے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخیر شب میں مع ہم سب لوگوں کے آرام فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم نماز (فجر) سے (غافل ہو کر) سو جاؤ۔ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں تم سب کو جگا دوں گا۔ لہٰذا سب لیٹے رہے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنی پیٹھ اپنی اونٹنی سے ٹیک کر بیٹھ گئے مگر ان پر بھی نیند غالب آ گئی اور وہ بھی سو گئے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت بیدار ہوئے کہ آفتاب کا کنارا نکل آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال! تمہارا کہنا کہاں گیا؟“ انھوں نے عرض کی کہ ایسی نیند میرے اوپر کبھی نہیں ڈالی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(سچ ہے) اللہ نے تمہاری جانوں کو جس وقت چاہا قبض کر لیا اور جس وقت چاہا واپس کیا، اے بلال! اٹھو اور لوگوں میں نماز کے لیے اذان دے دو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور جب آفتاب بلند ہو گیا اور سفید ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔