سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی جب وہ مر گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بابت پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو مر گئی،۔ فرمایا: ”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ (اچھا اب) مجھے اس کی قبر بتا دو۔“ چنانچہ لوگوں نے بتا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سود کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیات نازل کی گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور ان آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی تجارت حرام کر دی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سرکش جن گزشتہ شب میرے سامنے آیا (یا اس کی مثل کوئی کلمہ فرمایا) تاکہ میری نماز قطع کر دے مگر اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح کو اسے تم لوگ دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد آئی کہ ”اے میرے پروردگار! مجھے ایسی سلطنت دے، جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔“(سورۃ ص 35)(پھر اسے ذلیل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کر دیا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(غزوہ) خندق کے دن سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو ہفت اندام (ایک رگ کا نام ہے) میں زخم لگ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمہ مسجد میں نصب کیا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کریں۔ پس یکایک اس حال میں کہ مسجد میں بنی غفار کا (بھی) خیمہ تھا ان کی طرف خون بہہ کر آنے لگا تو ان لوگوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیا ہے؟ جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آتا ہے؟ تو (کیا دیکھتے ہیں کہ) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون بہہ رہا ہے پس وہ اسی سے شہید ہو گئے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرو۔“ پس میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو شخص اندھیری رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل کر گئے۔ (ایک ان میں سے سیدنا عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے کو میں سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سمجھتا ہوں) اور ان دونوں کے ہمراہ (نور کے) دو چراغ تھے جو ان کے سامنے روشن تھے۔ پھر جب وہ دونوں علیحدہ ہو گئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہو گیا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز) خطبہ پڑھا تو فرمایا کہ بیشک اللہ سبحانہ نے ایک بندہ کو (دنیا کے اور) اس چیز کے درمیان، جو اللہ کے ہاں ہے، اختیار دیا (کہ چاہے جس کو پسند کر لے) تو اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے تو امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بوڑھے کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ اگر اللہ نے کسی بندہ کو دنیا کے اور اس عالم کے درمیان جو اللہ کے ہاں ہے اختیار دیا اور اس نے اس عالم کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ مگر آخر میں معلوم ہوا کہ) بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور (امیرالمؤمنین) ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! تم نہ روؤ بیشک سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے، اپنی صحبت اور اپنے مال میں، ابوبکر صدیق ہیں اور اگر میں اپنی امت میں سے (کسی کو) خلیل بناتا تو یقیناً ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت اور اس کی محبت (کافی ہے اور) مسجد میں ابوبکر کے دروازہ کے سوا سب کا دروازہ بند کر دیا جائے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”اے لوگو! ابوبکر سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو یقیناً ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی خلت (دوستی، بھائی چارہ) افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا، انھوں نے (کعبہ کا) دروازہ کھول دیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بلال اور اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم اندر گئے، اس کے بعد دروازہ بند کر لیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تھوڑی دیر رہے، اس کے بعد سب لوگ نکلے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں کعبہ کی طرف جلدی سے بھاگا اور بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کس مقام میں؟ انھوں نے کہا دونوں ستونوں کے درمیان میں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مجھ سے یہ بات رہ گئی کہ ان سے پوچھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر نماز پڑھی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور آپ (اس وقت) منبر پر تھے کہ رات کی نماز کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو دو رکعت (پڑھنی چاہیے)۔ پھر جب تم میں سے کوئی صبح (ہو جانے) کا خوف کرے تو ایک رکعت (اور) پڑھ لے، پس وہ ایک رکعت اس کے لیے جس قدر پڑھ چکا (سب کو) وتر کر دے گی۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔