سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے عمرہ کے لیے کعبہ کا طواف کیا تھا اور صفا و مردہ کے درمیان طواف نہ کیا تھا کہ آیا وہ اپنی عورت کے پاس آئے (یا نہیں؟) تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے) تشریف لائے تو سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا (یعنی کعبہ کے گرد سات چکر لگائے) اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی اور صفا مروہ کے درمیان طواف (سعی) فرمایا اور بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی ذات) میں تمہارے لیے عمدہ نمونہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے تمام گوشوں میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے نکل آئے، پھر جب نکل آئے تو آپ کے کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہ قبلہ ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف سولہ مہینے یا سترہ مہینے نماز پڑھی۔ (یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی 142 سے 144 تک آیات اتار دیں) یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: ایمان کا بیان۔۔۔ باب: نماز (قائم کرنا) ایمان میں سے ہے۔۔۔) اور دونوں حدیثوں میں الفاظ مختلف ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر، جس سمت بھی وہ رخ کرتی (اسی سمت نفل) نماز پڑھتے رہتے اور جب فرض (نماز پڑھنے) کا ارادہ فرماتے تو اتر پڑتے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیتے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، ابراہیم راوی ہیں علقمہ سے اور علقمہ راوی ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں کچھ) زیادہ کر دیا تھا یا کم کر دیا تھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر چکے تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نئی بات ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کیا؟“ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس قدر نماز پڑھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں کو سمیٹ لیا اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور دو سجدے کیے، بعد اس کے سلام پھیرا۔ پھر جب ہماری طرف منہ کیا تو فرمایا: ”اگر نماز میں کوئی نیا حکم ہو جاتا تو میں تمہیں (پہلے سے) مطلع کرتا، لیکن میں تمہاری طرح ہی ایک بشر ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔ لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلاؤ اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ ٹھیک بات سوچ لے اور اسی پر نماز تمام کرے، پھر سلام پھیر کر دو سجدے (سہو کے) کرے۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار سے تین باتوں میں موافقت کی میں نے (ایک مرتبہ) کہا کہ یا رسول اللہ! کاش ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں پس یہ آیت نازل ہوئی ”اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کرو۔“(البقرہ: 125) اور حجاب کی آیت بھی میری خواہش کے مطابق نازل ہوئی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دے دیں، اس لیے کہ ان سے ہر نیک و بد گفتگو کرتا ہے۔ پس حجاب کی آیت نازل ہوئی اور (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جوش میں (آ کر) جمع ہوئیں تو میں نے ان سے کہا کہ ”اگر وہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو طلاق دے دیں تو عنقریب ان کا رب انھیں تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے میں دیدے گا۔“(التحریم: 5) پس یہی آیت نازل ہوئی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانب) قبلہ میں کچھ تھوک دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا۔ یہاں تک کہ (غصہ کا اثر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ظاہر ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا: ”تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اس کا پروردگار اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اپنے قبلہ کی جانب نہ تھوکے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوک کر اسے مل ڈالا اور فرمایا: ”اس طرح کر لے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ بالا حدیث نخامہ مروی ہے مگر اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: ”(دوران نماز) اپنی دائیں جانب نہ تھوکے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرا منہ اس طرح سمجھتے ہو حالانکہ اللہ کی قسم مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع اور میں یقیناً تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے (بھی) دیکھتا ہوں۔“