سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو (جو میرا غلام تھا) گالی دی یعنی اس کو اس کی ماں سے غیرت و عار دلائی تھی (یہ خبر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! کیا تم نے اسے اس کی ماں سے غیرت و عار دلائی ہے؟ بیشک تم ایسے آدمی ہو کہ (ابھی تک) تم میں جاہلیت (کا اثر باقی) ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ ان کو اللہ نے تمہارے قبضے میں دیدیا۔ پس جس شخص کا بھائی اس کے قبضہ میں ہوا اسے چاہئے کہ جو خود کھائے اسے بھی کھلائے اور جو خود پہنے اس کو بھی پہنائے اور (دیکھو) اپنے غلاموں سے اس کام کو (کرنے کا) نہ کہو جو ان پر شاق ہو اور جو ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔“
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ملاقات کریں (یعنی لڑیں) تو قاتل اور مقتول (دونوں) دوزخی ہیں“۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ قاتل (کی نسبت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی وجہ تو ظاہر) ہے مگر مقتول کا کیا حال ہے (وہ کیوں دوزخ میں جائے گا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس وجہ سے کہ) وہ اپنے حریف کے قتل کا خواہشمند تھا“۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ”جب یہ آیت کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا۔“(الانعام: 82) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (بہت گھبرائے اور) کہنے لگے کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت ”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے“۔ (لقمان: 13) نازل فرمائی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی تین خصلتیں ہیں۔ (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (3) جب (اس کے پاس) امانت رکھی جائے تو (اس میں) خیانت کرے“۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک بات ہو گی تو (بھی) اس میں ایک بات نفاق کی (ضرور) ہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے۔ (وہ چار باتیں یہ ہیں)(1) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ (4) جب لڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایمان (یقین) رکھتے ہوئے ثواب جان کر، شب قدر میں (عبادت کے لیے) بیدار رہے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں (جہاد کرنے کو) نکلے اور اس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے پیغمبروں پر ایقان ہی نے (جہاد پر آمادہ کر کے گھر سے) نکالا ہو، اس امر کا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ یا تو میں (یعنی اللہ) اسے اس ثواب اور (مال) غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا ہے یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کر دوں گا۔ اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو (کبھی) کسی سریہ (یعنی جس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھے) سے بھی پیچھے نہ رہتا اور میں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) یقیناً اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان میں، ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب سمجھ کر عبادت (یعنی نماز تراویح پڑھا) کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ماہ رمضان میں ایماندار ہو کر اور ثواب سمجھ کر روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ (نتیجتاً خود پیدا کردہ سختی کا متحمل نہیں ہو سکے گا) پس تم لوگ راست و میانہ روی اختیار کرو اور (ایک دوسرے سے) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ (کہ تمہیں ایسا آسان دین ملا ہے) اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ دیر رات میں عبادت کرنے سے قوت حاصل کرو۔