سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان (کسی پر) باندھنا جس کو تم (دیدہ و دانستہ) اپنے ہاتھوں اور اپنے پیروں کے سامنے بناؤ اور کسی اچھی بات میں (اللہ و رسول کی) نافرمانی نہ کرنا۔ پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی۔ اور جو ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور اللہ اس کو (دنیا میں) پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اگر چاہے تو اس سے درگزر کرے اور اگر چاہے تو اسے عذاب کرے (سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) ہم سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان (باتوں) پر بیعت کر لی۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”قریب ہے (کچھ بعید نہیں) کہ مسلمان کا اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں چلا جائے تاکہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو (نیک اعمال کرنے کا) حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کو وہ (ہمیشہ) کر سکیں (عبادت شاقہ کی ترغیب کبھی ان کو نہ دیتے تھے تو ایک مرتبہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی مثل نہیں ہیں، بیشک اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں (لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے حتیٰ کہ چہرہ (مبارک) میں غضب (کا اثر) ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا: ”تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کرتے ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہو چکے ہوں گے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے نکال لو۔ پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر وہ نہر حیاء (برسات) یا (نہر) حیات میں ڈالے جائیں گے“ یہ شک کے الفاظ امام مالک کے ہیں۔ (جو حدیث کے ایک راوی ہیں)”تب وہ تروتازہ ہو جائیں گے جس طرح دانہ (تروتازگی کے ساتھ) پانی کی روانی کی جانب اگتا ہے (اے شخص!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس حالت میں کہ میں سو رہا تھا اور میں نے (یہ خواب) دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور ان (کے بدن) پر کرتے ہیں۔ بعضے کرتے تو (صرف) چھاتیوں (ہی) تک ہیں اور بعضے ان سے نیچے ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (بھی) میرے سامنے پیش کیے گئے اور ان (کے بدن) پر (جو) قمیض ہے (وہ اتنی نیچی ہے) کہ وہ اس کو کھینچتے (ہوئے چلتے) ہیں۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قمیض کی تعبیر میں نے) دین (لی) ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری مرد کے پاس سے گزرے اور (ان کو دیکھا کہ) وہ اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حیاء کے بارے میں) اس کو (نصیحت کرنا) چھوڑ دو، اس لیے کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔“
14. (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ”اگر (کفار شرک سے) توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو (تم) ان (کے قتل) کی سبیل ترک کر دو“ (سورۃ التوبہ: 5)۔
“ मुशरिकों के ईमान लाने नमाज़ पढ़ने और ज़कात देने पर जंग बंद करने का हुक्म ”
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی (بھی گواہی دیں) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ پس جب یہ (باتیں) کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال بچا لیں گے سوائے حق اسلام کے اور ان لوگوں کا حساب اللہ کے حوالے ہے“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا“۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا: ”حج مبرور“۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد رضی اللہ عنہ (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (یعنی نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مومن سمجھتے ہو) یا مسلم؟“ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس نے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات کہی یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مومن جانتے ہو) یا مسلم؟“ پھر میں کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بابت جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سعد! میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں۔ حالانکہ دوسرا شخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے۔ (اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک مرتبہ) مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں میں نے زیادہ تر عورتوں کو پایا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں“۔ عرض کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کا کفر کرتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر کا کفر و ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ (وہ یوں کہ) اگر تو کسی عورت کے ساتھ عرصہ دراز تک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد کوئی (ناگوار) بات تجھ سے وہ دیکھ لے تو (فوراً) کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تجھ سے آرام (سکھ چین) نہیں پایا“۔