مختصر صحيح بخاري
ایمان کا بیان
جب اسلام سے اس کے حقیقی (شرعی) معنی مراد نہ ہوں (بلکہ ظاہری فرمانبرداری یا جان کے خوف سے مان لینا مراد ہو)۔
حدیث نمبر: 26
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد رضی اللہ عنہ (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (یعنی نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مومن سمجھتے ہو) یا مسلم؟“ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس نے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات کہی یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مومن جانتے ہو) یا مسلم؟“ پھر میں کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بابت جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سعد! میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں۔ حالانکہ دوسرا شخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے۔ (اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)“۔