-" إن الصخرة العظيمة لتلقى من شفير جهنم، فتهوي فيها سبعين عاما ما تفضي إلى قرارها".-" إن الصخرة العظيمة لتلقى من شفير جهنم، فتهوي فيها سبعين عاما ما تفضي إلى قرارها".
سیدنا عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی بڑی چٹان جہنم میں اس کے کنارے سے گرائی جائے تو وہ اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ستر سال تک گرتی رہے گی۔“
-" لو ان حجرا يقذف به في جهنم، هوى سبعين خريفا قبل ان يبلغ قعرها".-" لو أن حجرا يقذف به في جهنم، هوى سبعين خريفا قبل أن يبلغ قعرها".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر پتھر کو جہنم میں پھینک دیا جائے تو وہ اس کی آخری تہہ تک پہنچنے کے لیے ستر سال تک گرتا رہے گا۔“
-" الناس يومئذ على جسر جهنم".-" الناس يومئذ على جسر جهنم".
امام مجاہد بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے کہا: کیا تجھے جہنم کی وسعت کا علم ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! آپ کو واقعی علم نہیں ہو گا۔ (سنو! ایک جہنمی کے) کان کی لو اور کندھے کے درمیان کا فاصلہ ستر سال کی مسافت کا ہو گا، وہاں پیپ اور خون کی وادیاں چل رہی ہوں گی۔ میں نے کہا: نہریں چلیں گی، انہوں نے کہا: نہریں نہیں، وادیاں۔ پھر فرمایا: کیا تجھے جہنم کی وسعت کا علم ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں اللہ کی قسم! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا: «وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ»(۳۹-الزمر:۶۷)”اور ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوں گے۔“ کہ اے اللہ کے رسول! (جب زمین و آسمان کی یہ کیفیت ہو گی تو) اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس وقت جہنم کے پل ( یعنی پل صراط) پر ہوں گے۔“
- (إن في امتي اثني عشر منافقا، لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها؛ حتى يلج الجمل في سم الخياط؛ ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة: سراج من نار يظهر في اكتافهم حتى ينجم من صدورهم).- (إنّ في أمتي اثني عشر منافقاً، لا يدخلون الجنّة ولا يجدون ريحها؛ حتى يلج الجملُ في سمّ الخياط؛ ثمانيةٌ منهم تكفيكهم الدّبيلة: سراجٌ من نار يظهرُ في أكتافهم حتى ينجم من صدورهم).
قیس بن عباد کہتے ہیں: ہم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس لڑائی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ تم لوگوں کی اپنی رائے کا نتیجہ ہے، جس میں غلط یا درست ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے، یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اس قسم کی وصیت فرمائی ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی مخصوص نصیحت نہیں فرمائی، آپ نے اتنا ضرور فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہوں گے، وہ جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے، جب تک اونٹ سوئی کے نکے میں سے داخل نہ ہو جائے۔ ان میں سے آٹھ کو تو بڑی آفت (پھوڑا یا ورم) ہی کافی ہے، یعنی آگ کا ایک شعلہ ان کے کندھوں میں ظاہر ہو کر (اندر گھس جائے گا اور) وہ سینے سے نمودار ہو گا۔ “
- (إن في النار حيات امثال اعناق البخت؛ يلسعن اللسعة؛ فيجد حموتها اربعين خريفا. وإن فيها لعقارب كالبغال الموكفة؛ يلسعن اللسعة، فيجد حموتها اربعين خريفا).- (إنّ في النّار حيّاتٍ أمْثالَ أعْناقٍ البُخت؛ يلْسعْن اللسعَة؛ فيجدُ حُمُوَّتها أربعينَ خريفاً. وإنَّ فيها لَعقارب كالبغالِ الموكِفةِ؛ يلْسَعْنَ اللسعةَ، فيجدُ حُمُوَّتها أربعينَ خَريفاً).
صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح سانپ ہیں، جب وہ ڈنگ مارتے ہیں تو چالیس سال تک ان کے زہر کے درد کی شدت محسوس ہوتی رہتی ہے اور اس میں پالان رکھے ہوئے خچروں کی طرح کے (بڑے بڑے) بچھو ہیں، جب وہ ڈستے ہیں تو چالیس سال تک زہر کا اثر محسوس ہوتا رہتا ہے۔“
- (إن منهم من تاخذه النار إلى كعبيه، [ومنهم من تاخذه النار إلى ركبتيه]، ومنهم من تاخذه إلى حجزته، ومنهم من تاخذه إلى عنقه).- (إنّ منهم من تأخذه النارُ إلى كعبيه، [ومنهم من تأخذه النار إلى ركبتيه]، ومنهم من تأخذه إلى حُجْزَته، ومنهم من تأخذه إلى عنقه).
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”آگ بعض جہنمیوں کو ٹخنوں تک جلائے گی، بعض کو گھٹنوں تک جلائے گی، بعض کو کمر تک اور بعض کو گردن تک جلا دے گی۔ “
-" تعلمون المعاد إلى الله، ثم إلى الجنة او إلى النار، وإقامة لا ظعن فيه، وخلود لا موت في اجساد لا تموت".-" تعلمون المعاد إلى الله، ثم إلى الجنة أو إلى النار، وإقامة لا ظعن فيه، وخلود لا موت في أجساد لا تموت".
عمرو بن میمون اودی کہتے ہیں کہ ہم میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے بنو اود! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے، پھر جنت یا جہنم کی طرف۔ وہ ایسی (مستقل) اقامت گاہ ہے کہ وہاں سے روانگی نہیں ہو گی، وہ ایسی ہمیشگی ہے کہ جس میں موت نہیں آئے گی اور وہاں ایسے جسم ہوں گے جو مرنے والے نہیں ہوں گے۔“
-" الشمس والقمر ثوران مكوران في النار يوم القيامة".-" الشمس والقمر ثوران مكوران في النار يوم القيامة".
عبدالعزیز بن مختار بن عبداللہ دناج کہتے ہیں کہ میں خالد بن عبداللہ بن خالد بن اسید کے عہد میں ایک مسجد میں ابو سلمی بن عبدالرحمٰن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حسن بھی آ کر بیٹھ گئے، ہم گفتگو کرتے رہے، دوران گفتگو ابوسلمہ نے کہا: ہمیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت والے دن سورج اور چاند دونوں دوزخ میں لپٹے ہوئے ہوں گے اور ان کا رنگ سرخ ہو گا۔ “ حسن نے کہا: ان کا کیا گناہ ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں۔ یہ سن کر حسن خاموش ہو گیا۔
-" صنفان من اهل النار لم ارهما، قوم معهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رءوسهن كاسنمة البخت المائلة لا يدخلن-" صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رءوسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جہنم میں جانے والے دو قسم کے لوگ ابھی تک نہیں دیکھے۔ (۱) وہ لوگ جن کے پاس گائیوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں اور وہ ان سے لوگوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ اور (۲) وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل ہوں گی نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے ہی محسوس کی جاتی ہے۔“