-" لا يدخل الجنة من النساء إلا من كان منهن مثل هذا الغراب في الغربان".-" لا يدخل الجنة من النساء إلا من كان منهن مثل هذا الغراب في الغربان".
عمارہ بن خزیمہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حج یا عمرے کے موقع پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے، اچانک ایک عورت آئی، اس نے کنگن اور انگوٹھیاں پہن کر اپنا ہاتھ کجاوے پر پھیلا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا: ہم اسی گھاٹی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا دیکھو، آیا کوئی چیز نظر آ رہی ہے؟“ ہم نے کہا: کوے نظر آ رہے ہیں، ان میں ایک کوا سرخ چونچ اور سرخ پیروں والا بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کی اتنی ہی تعداد جنت میں داخل ہو گی جتنی ان کووں میں اس کوے کی ہے۔“
-" اطلعت في الجنة فرايت اكثر اهلها الفقراء، واطلعت في النار فرايت اكثر اهلها النساء".-" اطلعت في الجنة فرأيت أكثر أهلها الفقراء، واطلعت في النار فرأيت أكثر أهلها النساء".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں نے جنت کا جائزہ لیا تو وہاں فقراء کی کثرت پائی اور جب جہنم میں دیکھا تو وہاں عورتوں کی کثرت نظر آئی۔
- (ن الفساق هم اهل النار. قيل: يا رسول الله! ومن الفساق؟ قال: النساء. قال رجل: يا رسول الله! اولسن امهاتنا واخواتنا وازواجنا؟ قال: بلى؛ ولكنهن إذا اعطين لم يشكرن، وإذا ابتلين لم يصبرن).- (نَّ الفُسَّاقَ هم أهلُ النارِ. قيل: يا رسول الله! ومَنِ الفساقُ؟ قال: النساءُ. قال رجلٌ: يا رسول الله! أَوَلَسْنَ أُمَّهاتِنا وأخواتِنا وأزواجَنا؟ قال: بلى؛ ولكنّهنّ إذا أُعْطِينَ لم يَشْكُرْنَ، وإذا ابْتُلِينَ لم يَصْبِرْنَ).
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک «فساق» جہنمی ہیں۔“ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! «فساق» کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتیں ہیں۔“ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، لیکن جب ان کو نعمتیں ملتی ہیں تو وہ ناشکری کرتی ہیں اور جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔
-" الا انبئكم باهل الجنة؟ الضعفاء المظلومون، الا انبئكم باهل النار؟ كل شديد جعظري".-" ألا أنبئكم بأهل الجنة؟ الضعفاء المظلومون، ألا أنبئكم بأهل النار؟ كل شديد جعظري".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے جنت والوں کی نشاندہی نہ کر دوں؟ وہ تو کمزور اور مظلوم لوگ ہیں۔ کیا میں تمہیں جہنم والوں کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ وہ سخت اور مغرور لوگ ہیں۔“
-" الا انبئكم باهل الجنة؟ المغلوبون الضعفاء واهل النار كل جعظري جواظ مستكبر".-" ألا أنبئكم بأهل الجنة؟ المغلوبون الضعفاء وأهل النار كل جعظري جواظ مستكبر".
سیدنا سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ وہ مغلوب اور ضعیف قسم کے لوگ ہیں اور بدمزاج، اکڑوں اور متکبر لوگ جہنمی ہیں۔“
-" اما اهل النار الذين هم اهلها (وفي رواية: الذين لا يريد الله عز وجل إخراجهم) فإنهم لا يموتون فيها ولا يحيون، ولكن ناس اصابتهم النار بذنوبهم (يريد الله عز وجل إخراجهم) فاماتهم إماتة، حتى إذا كانوا فحما اذن بالشفاعة، فجيء بهم ضبائر ضبائر، فبثوا على انهار الجنة، ثم قيل: يا اهل الجنة افيضوا عليهم، فينبتون نبات الحبة تكون في حميل السيل".-" أما أهل النار الذين هم أهلها (وفي رواية: الذين لا يريد الله عز وجل إخراجهم) فإنهم لا يموتون فيها ولا يحيون، ولكن ناس أصابتهم النار بذنوبهم (يريد الله عز وجل إخراجهم) فأماتهم إماتة، حتى إذا كانوا فحما أذن بالشفاعة، فجيء بهم ضبائر ضبائر، فبثوا على أنهار الجنة، ثم قيل: يا أهل الجنة أفيضوا عليهم، فينبتون نبات الحبة تكون في حميل السيل".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن دوزخیوں کو جہنم سے نکالنے کا اللہ تعالیٰ کا کوئی ارادہ نہیں ہو گا، وہ نہ مریں گے اور نہ جئیں گے۔ لیکن جن جہنمیوں کو وہاں سے نکالنے کا اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو گا، وہ انہیں وہاں موت دے ے گا، یہاں تک کہ وہ (جل جل کر) کوئلہ بن جائیں گے، پھر ان کے لیے سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی اور ان کو گروہوں کی شکل میں وہاں سے نکال کر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے گا، وہ ایسے نشو و نما پائیں جیسے سیلاب کے بہاؤ میں دانہ اگتا ہے۔“ یعنی بہت جلد اپنے وجود میں آ جائیں گے۔
- (إن الله عز وجل إذا اراد رحمة امة من عباده قبض نبيها قبلها؛ فجعله لها فرطا وسلفا بين يديها؛ وإذا اراد هلكة امة عذبها ونبيها حي؛ فاهلكها وهو ينظر؛ فاقر عينه بهلكتها حين كذبوه وعصوا امره).- (إنّ الله عز وجل إذا أرادَ رحمةَ أُمَّةٍ من عبادِهِ قَبَضَ نبيَِّها قبلها؛ فجعله لها فَرَطاً وسََلَفاً بين يديها؛ وإذا أراد هلكةَ أُمَّةٍ عَذَّبَها ونبيُّها حَيٌِّ؛ فَأَهْلَكَها وهو يَنظرُ؛ فَأَقَرَّ عَيْنَهُ بِهَلَكَتِها حينَ كَذَّبُوهُ وعَصَوْا أمرَهُ).
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر رحمت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کے نبی کو ان سے پہلے فوت کر کے اسے ان کے لیے میر سامان اور پیش رو بنا دیتا ہے اور جب کسی امت کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے نبی کی زندگی میں اور اس کے سامنے عذاب کے ذریعے ہلاک کر دیتا ہے، چونکہ وہ نبی کو جھٹلانے والے اور اس کی نافرمانی کرنے والے ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی ان کی ہلاکت پر خوش ہوتا ہے۔“
-" إن اهل النار ليبكون حتى لو اجريت السفن في دموعهم لجرت، وإنهم ليبكون الدم. يعني مكان الدمع".-" إن أهل النار ليبكون حتى لو أجريت السفن في دموعهم لجرت، وإنهم ليبكون الدم. يعني مكان الدمع".
سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمی اتنا روئیں گے (اور اتنے آنسو روئیں گے کہ) اگر ان میں کشتی چلائی جائے تو وہ بھی چل پڑے گی، وہ پانی کے آنسوؤں کی جگہ خون کے آنسو روئیں گے۔“
-" إن اهون اهل النار عذابا يوم القيامة رجل يحذى له نعلان من نار يغلي منهما دماغه يوم القيامة".-" إن أهون أهل النار عذابا يوم القيامة رجل يحذى له نعلان من نار يغلي منهما دماغه يوم القيامة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت والے دن جہنمیوں میں سب سے زیادہ ہلکے عذاب والا وہ آدمی ہو گا جسے آگ کے دو جوتے پہنا دیئے جائیں گے، جن کی حرارت سے اس کا دماغ ابلنے لگے گا۔ ”
ـ (إن (الحميم) ليصب على رؤوسهم، فينفذ (الحميم) حتىيخلص إلى جوفه؛ فيسلت ما في جوفه؛ حتى يمرق من قدميه، وهو (الصهر)، ثم يعاد كما كان).ـ (إنّ (الحميمَ) ليُصبُّ على رؤوسهم، فينفذُ (الحميمُ) حتّىيخلُصَ إلى جوْفِه؛ فيسْلُت ما في جَوْفِه؛ حتّى يَمْرُق من قدمَيْه، وهو (الصَّهر)، ثم يعاد كما كان).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک گرم پانی ان (جہنمیوں) کے سروں پر بہایا جائے گا، وہ جسم کو چیرتے ہوئے ان کے پیٹ میں جا پہنچے گا اور پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اس کو یوں نکال دے گا کہ وہ بہہ کر قدموں کی طرف سے نکل جائے گا، یہی «صهر»(پگھلنا) ہے ( جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے)، پھر ان کو وہی وجود دے دیا جائے گا جو پہلے تھا۔“