- (ليس في الارض من الجنة إلا ثلاثة اشياء: غرس العجوة، واواق تنزل في الفرات كل يوم من بركة الجنة والحجر).- (ليسَ في الأرضِ منَ الجنةِ إلا ثلاثةُ أشياء: غرْسُ العجوة، وأواقٍ تنزلُ في الفراتِ كلَّ يومٍ من بركةِ الجنةِ والحَجَرُ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کی صرف تین چیزیں اس زمین میں پائی جاتی ہیں: عجوہ کھجور کا درخت، اوقیے جو برکات جنت میں سے فرات میں نازل ہوتے ہیں اور حجر اسود۔“
-" ما انتم بجزء من مائة الف جزء ممن يرد علي الحوض من امتي".-" ما أنتم بجزء من مائة ألف جزء ممن يرد علي الحوض من أمتي".
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا: ”میری امت کے جو لوگ حوض پر میرے پاس آئیں گے، تم ان کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو۔“ زید بن ارقم سے پوچھا گیا کہ تم لوگ اس دن کتنے تھے؟ انہوں نے کہا سات، آٹھ سو تھے۔
-" اعطيت الكوثر، فإذا هو نهر يجري [كذا على وجه الارض] ولم يشق شقا، فإذا حافتاه قباب الؤلؤ، فضربت بيدي إلى تربته، فإذا هو مسكة ذفرة، وإذا حصاه اللؤلؤ".-" أعطيت الكوثر، فإذا هو نهر يجري [كذا على وجه الأرض] ولم يشق شقا، فإذا حافتاه قباب الؤلؤ، فضربت بيدي إلى تربته، فإذا هو مسكة ذفرة، وإذا حصاه اللؤلؤ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ» (۱۰۸-الکوثر:۱)”بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔“ اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کوثر عطا کی گئی ہے، وہ ایک نہر ہے جو بغیر شق کے سطح زمین پر چلتی ہے، اس کے کناروں پر لؤلؤ موتیوں کے قبے ہیں، میں نے اپنا ہاتھ اس کی مٹی پر مارا تو کیا دیکھتا کہ وہ تو انتہائی تیز مہکنے والی کستوری ہے اور اس کی کنکریاں لؤلؤ موتی ہیں۔“
- (بينا انا اسير في الجنة؛ إذ عرض لي نهر حافتاه قباب اللؤلؤ، قلت للملك: ما هذا [يا جبريل]؟! قال: هذا الكوثر الذي اعطاكه الله، قال: ثم ضرب بيده إلى طينه (¬1)، فاستخرج مسكا، ثم رفعت لي سدرة المنتهى، فرايت عندها نورا عظيما).- (بينا أنا أسير في الجنة؛ إذ عُرضَ لي نهرٌ حافتاه قباب اللؤلؤ، قلت للملك: ما هذا [يا جبريل]؟! قال: هذا الكوثر الذي أعطاكه الله، قال: ثم ضرب بيده إلى طينه (¬1)، فاستخرج مسكاً، ثم رُفعت لي سِدرةُ المنتهى، فرأيت عندها نوراً عظيماً).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں چل رہا تھا، کہ ایک نہر تک جا پہنچا، اس کے کناروں پر لؤلؤ کے قبے تھے۔ میں نے فرشتے سے کہا: جبریل! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ وہی نہر کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی۔“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کی مٹی پر مارا اور (مٹی کی جگہ پر) کستوری نکالی۔ ”پھر «سدرة المنتهى» کو میرے سامنے لایا گیا، میں نے اس کے پاس بہت زیادہ نور دیکھا۔“
-" ذاك نهر اعطانيه الله - يعني - في الجنة، اشد بياضا من اللبن واحلى من العسل فيه طير اعناقها كاعناق الجزر. قال عمر: إن هذه لناعمة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اكلتها انعم منها".-" ذاك نهر أعطانيه الله - يعني - في الجنة، أشد بياضا من اللبن وأحلى من العسل فيه طير أعناقها كأعناق الجزر. قال عمر: إن هذه لناعمة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكلتها أنعم منها".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا: کوثر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”وہ جنت میں ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں جن کر گردنیں اونٹنیوں کی گردنوں کی طرح ہیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو بڑے موٹے تازے پرندے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو کھانا اس سے بھی زیادہ خوشگوار ہو گا۔“
-" ما رايت مثل النار نام هاربها ولا مثل الجنة نام طالبها".-" ما رأيت مثل النار نام هاربها ولا مثل الجنة نام طالبها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ جہنم جیسی ( ہولناک) چیز سے بچنے والا سویا ہوا ہو اور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ جنت جیسے (نعمت کدے) میں داخل ہونے والا محو آرام ہو۔“
-" ما من احد يموت سقطا ولا هرما - وإنما الناس فيما بين ذلك - إلا بعث ابن ثلاثين سنة، فإن كان من اهل الجنة كان على نسحة آدم، وصورة يوسف، وقلب ايوب، ومن كان من اهل النار عظموا، او فخموا كالجبال".-" ما من أحد يموت سقطا ولا هرما - وإنما الناس فيما بين ذلك - إلا بعث ابن ثلاثين سنة، فإن كان من أهل الجنة كان على نسحة آدم، وصورة يوسف، وقلب أيوب، ومن كان من أهل النار عظموا، أو فخموا كالجبال".
سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنی تخلیق کی تکمیل سے پہلے (یعنی نامکمل حالت میں) مر جائے یا انتہائی عمر رسیدہ ہو کر، اور لوگ ان دو عمروں کے درمیان ہی ہوتے ہیں، (بہرحال اسے حشر والے دن) تیس سال کی عمر (کا جوان بنا کر) اٹھایا جائے گا، اگر وہ جنتی ہوا تو آدم علیہ السلام کی ساخت پر، یوسف علیہ السلام کی صورت پر اور ایوب علیہ السلام کے دل پر ہو گا اور جہنمی ہوا تو اس کے جسم کو پہاڑ کی مانند عظیم و جسیم بنا دیا جائے گا۔“
-" الناس يومئذ على جسر جهنم".-" الناس يومئذ على جسر جهنم".
امام مجاہد بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے کہا: کیا تجھے جہنم کی وسعت کا علم ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! آپ کو واقعی علم نہیں ہو گا۔ (سنو! ایک جہنمی کے) کان کی لو اور کندھے کے درمیان کا فاصلہ ستر سال مسافت کا ہو گا، وہاں پیپ اور خون کی وادیاں چل رہی ہوں گی۔ میں نے کہا: نہریں چلیں گی؟ انہوں نے کہا: نہریں نہیں، وادیاں۔ پھر فرمایا: کیا تجھے جہنم کی وسعت کا علم ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! آپ کو واقعی علم نہیں ہو گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا «وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ»(۳۹-الزمر:۶۷) ”اور ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوں گے۔“ کہ اے اللہ کے رسول! ( جب زمین و آسمان کی یہ کیفیت ہو گی تو) اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” وہ اس وقت جہنم کے پل ( یعنی پل صراط) پر ہوں گے۔“
- (اتاني رجلان، فاخذا بضبعي، فاتيا بي جبلا وعرا، فقالا: اصعد. فقلت: إني لا اطيقه. فقالا: إنا سنسهله لك. فصعدت حتى إذا كنت في سواء الجبل؛ إذا انا باصوات شديدة، قلت: ما هذه الاصوات؟ قالوا: هذا عواء اهل النار ثم انطلقا بي؛ فإذا انا بقوم معلقين بعراقيبهم، مشققة اشداقهم، تسيل اشداقهم دما، قال، قلت: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلة صومهم. فقال: خابت اليهود والنصارى- فقال سليمان (¬2): ماادري اسمعه ابو امامة من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ام شيء من رايه؟! -. ثم انطلقا [بي] ؛فإذا بقوم اشد شيء انتفاخا، وانتنه ريحا، واسوده منطرا، فقلت: من هؤلاء؟ فقال: هؤلاء قتلى الكفار. ثم انطلقا بي، فإذا بقوم اشد شيء انتفاخا، وانتنه ريحا، كان ريحهم المراحيض، قلت: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الزانون والزواني. ¬ (¬1) وتحرف في"مطبوعته" (8/ 145) إلى:"ازنى الزنى"!! * (¬2) هو: ابن عامر ابو يحيى الراوي عن ابي امامة رضي الله عنه. * ثم انطلقا بي؛ فإذا انا بنساء تنهش ثديهن الحيات. قلت: ما بال هؤلاء؟! قال: هؤلاء اللاتي يمنعن اولادهن البانهن. ثم انطلقا بي؛ فإذا انا بغلمان يلعبون بين نهرين، قلت: من هؤلاء؟ قالا: هؤلاء ذراري المؤمنين. ثم اشرفا بي شرفا؛ فإذا انا بنفر ثلاثة يشربون من خمر لهم، قلت: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء جعفر وزيد وابن رواحة. ثم اشرفا بي شرفا آخر؛ فإذا انا بنفر ثلاثة، قلت: من هؤلاء؟ قال: هذا إبراهيم وموسى وعيسى، وهم ينتظرونك).- (أَتاني رجُلان، فأَخذاَ بضَبعَيَّ، فأَتيَا بي جَبَلاً وعراً، فقالا: اصعد. فقلتُ: إنِّي لا أُطِيقُه. فقالا: إنّا سنُسهّله لك. فصعِدتُ حتّى إذا كنتُ في سَواءِ الجبَل؛ إذا أنا بأصواتٍ شديدةٍ، قلتُ: ما هذه الأصواتُ؟ قالوا: هذا عُواء أهلِ النّارِ ثم انطلقَا بي؛ فإذا أنا بقوم معلَّّقينَ بعَراقِيبهم، مشقّقة أشداقُهم، تسيلُ أشداقُهم دماً، قال، قلتُ: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الذين يفطرون قبل تَحِلَّةِ صومِهم. فقال: خابتِ اليهودُ والنّصارى- فقال سليمان (¬2): ماأدري أسمعه أبو أمامة من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، أم شيءٌ من رأيه؟! -. ثمّ انطلقا [بي] ؛فإذا بقومٍ أشدَّ شيءٍ انتفاخاً، وأنتنِهِ ريحاً، وأسودِهِ منطَراً، فقلت: من هؤلاء؟ فقال: هؤلاءِ قتلَى الكفار. ثم انطلقا بي، فإذا بقوم أشدَّ شيءٍ انتفاخاً، وأنتنِهِ ريحاً، كأن ريحَهم المراحيضُ، قلتُ: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الزّانُون والزّواني. ¬ (¬1) وتحرّف في"مطبوعته" (8/ 145) إلى:"أزنى الزِّنى"!! * (¬2) هو: ابن عامر أبو يحيى الراوي عن أبي أمامة رضي الله عنه. * ثم انطلقا بي؛ فإذا أنا بنساء تنهشُ ثُديَّهنَّ الحيّاتُ. قلتُ: ما بالُ هؤلاء؟! قال: هؤلاءِ اللاتي يمنعنَ أولادَهنّ ألبانَهُنَّ. ثم انطلقا بي؛ فإذا أنا بغِلمانٍ يلعبونَ بين نهرَينِ، قلتُ: من هؤلاء؟ قالا: هؤلاء ذراري المؤمنينَ. ثم أشرفا بي شرفاً؛ فإذا أنا بنفرٍ ثلاثة يشربونَ من خمر لهم، قلت: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء جعفرٌ وزيدٌ وابنُ رواحةَ. ثم أشرفا بي شرفاً آخر؛ فإذا أنا بنفر ثلاثة، قلت: من هؤلاء؟ قال: هذا إبراهيمُ ومُوسَى وعيسَى، وهم ينتظرونَكَ).
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”میرے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے میرا بازو پکڑا اور مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ کے پاس لے گئے۔ انہوں نے مجھے کہا: اس پر چڑھو: میں نے کہا: مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں کہ اس پر چڑھ سکوں۔ انہوں نے کہا: ہم تیرے لیے آسان کر دیں گے۔ سو میں نے چڑھنا شروع کر دیا، جب میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو شدید قسم کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے پوچھا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا جہنمیوں کی چیخ پکار ہے پھر وہ مجھے لے کر آگے چلے، ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ وہاں کچھ لوگ الٹے لٹکائے گئے ہیں، ان کی باچھوں کو پھاڑا جا رہا ہے اور وہاں سے خون بہہ رہا ہے۔ میں نے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وقت سے پہلے روزہ افطار کر دینے والے لوگ ہیں۔“ پھر فرمایا: ”یہود و نصاریٰ ناکام و نامراد ہو گئے۔“ راوی حدیث سلیمان کہتے ہیں: مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ (یہود و نصاریٰ کے متعلقہ) یہ الفاظ سیدنا ابوامامہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں یا ان کے اپنے الفاظ ہیں۔ ”پھر وہ دونوں مجھے لے کر آگے بڑھے، میں کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ پھولے ہوئے ہیں، ان سے بدترین بدبو آ رہی ہے اور انتہائی سیاہ منظر پیش کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ مقتول کفار ہیں۔ پھر وہ میرے ساتھ آگے بڑھے اور ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو بری طرح پھولے ہوئے ہیں، ان سے بیت الخلاء کی طرح کی بدترین بدبو آ رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ پھر مجھے لے کر آگے بڑھے اور ہم ایسی عوتوں کے پاس سے گزرے کہ سانپ ان کے پستانوں کو نوچ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ عوتیں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانے والی عورتیں ہیں۔ پھر وہ مجھے لے کر آگے بڑھے، میں کیا دیکھتا ہوں کہ دو نہروں کے درمیان میں کچھ بچے کھیل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ مومنوں کے بچے ہیں۔ پھر وہ مجھے ایک اونچی جگہ کی طرف لے گئے، میں کیا دیکھتا ہوں کہ تین افراد شراب پی رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ جعفر، زید اور ابن رواحہ (رضی اللہ عنہم) ہیں۔ پھر وہ مجھے ایک اور بلند جگہ کی طرف لے گئے، وہاں ہمیں تین افراد نظر آئے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ابرا ہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں، جو آپ کے منتظر ہیں۔