-" إن ما بين مصراعين في الجنة مسيرة اربعين سنة".-" إن ما بين مصراعين في الجنة مسيرة أربعين سنة".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے دروازوں کے دو پٹوں کے درمیان کا فاصلہ چالیس برس کی مسافت کا ہے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا معاویہ بن حیدہ، سیدنا عتبہ بن غزوان اور سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
-" الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين مسيرة مائة عام - وقال عفان: كما بين السماء إلى الارض - والفردوس اعلاها درجة ومنها تخرج الانهار الاربعة والعرش من فوقها، وإذا سالتم الله تبارك وتعالى، فاسالوه الفردوس".-" الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين مسيرة مائة عام - وقال عفان: كما بين السماء إلى الأرض - والفردوس أعلاها درجة ومنها تخرج الأنهار الأربعة والعرش من فوقها، وإذا سألتم الله تبارك وتعالى، فاسألوه الفردوس".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے۔“ عفان نے اپنی روایت میں کہا: جتنا کہ آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔ درجہ میں سب سے اعلیٰ مقام فردوس ہے، اس سے چار نہریں نکلتی ہیں، اس سے اوپر عرش ہے، جب بھی تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کیا کرو۔
-" دخلت الجنة فرايت لزيد بن عمرو بن نفيل درجتين".-" دخلت الجنة فرأيت لزيد بن عمرو بن نفيل درجتين".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا اور زید بن عمرو بن نفیل کے دو درجے دیکھے۔“
-" الحسن مني والحسين من علي".-" الحسن مني والحسين من علي".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ جاسوسی کے لیے نکلے، اچانک ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کی ماں نے کہا: اے اللہ کے رسول (23-المؤمنون:1)! آپ جانتے ہیں کہ حارثہ کا میرے ہاں کیا مقام تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں، وگرنہ آپ دیکھیں گے کہ میں (اس کی جدائی پر) کیا کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام حارثہ! جنت ایک نہیں ہے، بلکہ کئی جنتیں ہیں اور (تیرا بیٹا) حارثہ جنت کے افضل حصے میں یا جنۃ الفردوس میں ہے۔“
-" خلق الله تبارك وتعالى الجنة لبنة من ذهب ولبنة من فضة وملاطها المسك، فقال لها: تكلمي، فقالت: * (قد افلح المؤمنون) *، فقالت الملائكة: طوبى لك، منزل الملوك".-" خلق الله تبارك وتعالى الجنة لبنة من ذهب ولبنة من فضة وملاطها المسك، فقال لها: تكلمي، فقالت: * (قد أفلح المؤمنون) *، فقالت الملائكة: طوبى لك، منزل الملوك".
سیدنا ابوسعید سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے روایت ہے کہ ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا، (تعمیر کا انداز یہ تھا کہ) ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا کستوری کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: کلام کر۔ اس نے کہا: «قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ» ”تحقیق مومن کامیاب ہو گئے“(۲۳-المؤمنون:۱)، فرشتوں نے کہا: (اے جنت!) تیرے لیے خوشخبری ہو، تو تو بادشاہوں کا ٹھکانہ ہے۔“
-" دخلت الجنة، فإذا انا بقصر من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لشاب من قريش، فظننت اني انا هو، فقلت: ومن هو؟ فقالوا: لعمر بن الخطاب، (قال: فلولا ما علمت من غيرتك لدخلته، فقال عمر: عليك يا رسول الله اغار؟)".-" دخلت الجنة، فإذا أنا بقصر من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لشاب من قريش، فظننت أني أنا هو، فقلت: ومن هو؟ فقالوا: لعمر بن الخطاب، (قال: فلولا ما علمت من غيرتك لدخلته، فقال عمر: عليك يا رسول الله أغار؟)".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا، اچانک سونے کا ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: ایک قریشی جوان کا ہے۔ مجھے خیال تھا کہ یہ میرا ہی ہو گا (کیونکہ میں قریشی ہوں)۔ بہرحال میں نے پوچھا: وہ قریشی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اگر تیری غیرت و حمیت کا مسلئہ نہ ہوتا تو میں اس میں ضرور داخل ہو جاتا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟
-" طوبى شجرة في الجنة، مسيرة مائة عام، ثياب اهل الجنة تخرج من اكمامها".-" طوبى شجرة في الجنة، مسيرة مائة عام، ثياب أهل الجنة تخرج من أكمامها".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طوبیٰ، جنت میں ایک درخت کا نام ہے، اس (کے سائے) کی مسافت سو سال ہے اور جنتیوں کے کپڑے اس کی کلیوں کے غلاف سے تیار کئے گئے ہیں۔“
-" إن الله يجعل مكان كل شوكة (يعني من شجرة الطلح في الجنة) مثل خصية التيس الملبود - يعني المخصي - فيها سبعون لونا من الطعام لا يشبه لونه لون الآخر".-" إن الله يجعل مكان كل شوكة (يعني من شجرة الطلح في الجنة) مثل خصية التيس الملبود - يعني المخصي - فيها سبعون لونا من الطعام لا يشبه لونه لون الآخر".
سیدنا عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک بدو آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو جنت کے ببول یا کیکر نامی درخت کا تذکرہ کرتے سنا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ تو ہمارے ہاں سب سے زیادہ کانٹوں والا درخت ہے (ان کے چبھنے سے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے تو جنت میں ایسے درخت کا کیا تُک ہے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کے ہر کانٹے کے بدلے خصی بکرے کے خصیہ کی طرح کی ایک چیز پیدا کرے گا، اس میں ستر رنگ کے کھانے ہوں گے اور ہر ایک کا رنگ دوسرے کے رنگ سے مشابہ نہیں ہو گا۔“
-" الفردوس ربوة الجنة، وهي اوسطها واحسنها".-" الفردوس ربوة الجنة، وهي أوسطها وأحسنها".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فردوس تو جنت کا ٹیلہ (اونچا مقام) ہے، وہ جنت کا اعلیٰ و افضل اور احسن و اجمل حصہ ہے۔“