ـ (من كشف سترا، فادخل بصره في البيت قبل ان يؤذن له، فراى عورة اهله؛ فقد اتى حدا لا يحل له ان ياتيه؛ لو انه حين ادخل بصره استقبله رجل ففقا عينه ما غيرت عليه، وإن مر الرجل على باب لا ستر له غير مغلق فنظر فلا خطيئة عليه؛ إنما الخطيئة على اهل البيت).ـ (مَنْ كشَفَ سِتْراً، فأَدخَلَ بصَرَه في البيْتِ قبْلَ أن يؤْذَنَ له، فرأَى عورةَ أهلِه؛ فقدْ أتَى حدّاً لا يحلُّ له أنْ يأْتيَه؛ لو أنه حينَ أدخَلَ بصَرَهُ استقبلَه رجلٌ ففقأَ عينَه ما غَيَّرت عليه، وإنْ مرَّ الرّجلُ على بابٍ لا ستْرَ له غيرَ مغْلَقٍ فنظَر فلا خطيئةَ عليه؛ إنما الخطيئةُ على أهْلِ البيْتِ).
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (کسی کے گھر کا) پردہ اٹھایا اور اجازت سے پہلے گھر میں دیکھنے لگا اور گھر والوں کی پردہ والی چیزوں کو دیکھ لیا تو اس نے ایسی حد کا ارتکاب کیا، جو اس کے لیے حلال نہیں تھی۔ اگر (اسی دوران) جبکہ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کوئی آدمی اس کے سامنے آتا ہے اور اس کی آنکھ پھوڑ دیتا ہے تو میں اس پر کوئی عیب نہیں لگاؤں گا۔ ہاں اگر کوئی شخص ایسے دروازے کے پاس سے گزرتا ہے، جس پر نہ کوئی پردہ ہوتا ہے اور نہ وہ بند ہوتا ہے تو ایسے گھر کے اندر دیکھنے میں دیکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا، البتہ گھر والوں پر گناہ ہو گا۔“
-" كان إذا مشى مشى اصحابه امامه، وتركوا ظهره للملائكة".-" كان إذا مشى مشى أصحابه أمامه، وتركوا ظهره للملائكة".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے، آپ کی پیٹھ کو فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے۔
- (كان بعث الوليد بن عقبة بن ابي معيط إلى بني المصطلق لياخذ منهم الصدقات، وانه لما اتاهم الخبر فرحوا، وخرجوا ليتلقوا رسول رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وانه لما حدث الوليد انهم خرجوا يتلقونه رجع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ فقال: يا رسول الله! إن بني المصطلق قد منعوا الصدقة. فغضب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من ذلك غضبا شديدا، فبينما هو يحدث نفسه ان يغزوهم إذ اتاه الوفد، فقالوا: يا رسول الله! إنا حدثنا ان رسولك رجع من نصف الطريق، وإنا خشينا ان يكون إنما رده كتاب جاءه منك لغضب غضبته علينا، وإنا نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله! وان رسول الله استعتبهم (!) وهم بهم، فانزل الله عز وجل عذرهم في الكتاب: (يا ايها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا ان تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين) [الحجرات/6]- (كان بعث الوليد بن عقبة بن أبي مُعيط إلى بني المُصطَلِقِ ليأخذ منهم الصدقات، وأنه لما أتاهم الخبرُ فرحوا، وخرجوا ليتلقَّوا رسولَ رسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّه لَمَّا حُدِّثَ الوليدُ أنهم خرجوا يَتَلَقَّوْنَهُ رجع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ فقال: يا رسول الله! إن بني المصطلق قد مَنَعُوا الصدقة. فَغَضِبَ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من ذلك غضباً شديداً، فبينما هو يُحَدِّثُ نفسه أن يغزوهم إذ أتاه الوفد، فقالوا: يا رسول الله! إنا حُدِّثنا أن رسولك رجع من نصف الطريق، وإنّا خشينا أن يكون إنما رّدَّهُ كتابٌ جاءه منك لغضبٍ غَضِبتَهُ علينا، وإنا نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله! وأن رسول الله اسْتَعْتَبَهُم (!) وهَمَّ بهم، فأنزل الله عز وجل عُذرَهُم في الكتاب: (يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا أن تصيبوا قوماً بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين) [الحجرات/6]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو مصطلق کی طرف صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب ان لوگوں کو ان کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے استقبال کے لیے باہر نکلے، لیکن جب ولید کو ان کے استقبال کے طور پر باہر نکلنے کا بتلایا گیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لوٹ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! بنو مصطلق نے صدقہ روک لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہ بہت غصہ آیا، ابھی آپ ان کے خلاف جہاد کا سوچ ہی رہے تھے کہ (بنو مصطلق) کا وفد آپ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کا قاصد نصف طریق سے واپس لوٹ آیا ہے اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو ہم پر غصہ آیا ہو، جس کی وجہ سے آپ نے قاصد کو رقعہ لکھ کر واپس بلا لیا ہو، ہم تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو راضی کیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے خلاف جنگ کرنے کا) ارادہ کر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے (اپنی) کتاب میں ان کا عذر نازل فرمایا۔ ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہیں کوئی خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پریشان ہونا پڑے۔“
-" كان رحيما وكان لا ياتيه احد إلا وعده وانجز له إن كان عنده".-" كان رحيما وكان لا يأتيه أحد إلا وعده وأنجز له إن كان عنده".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحم کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی آپ کے پاس آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے وعدہ کر لیتے تھے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز ہوتی تو فوراً پورا کر دیتے تھے۔ (ایک دفعہ) ایک بدو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا: میری تھوڑی سی ضرورت باقی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں بھول نہ جاؤں۔ سو آپ اس کے ساتھ چلے، حتی کہ اس کی ضرورت سے فارغ ہوئے، پھر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔
-" كان مما يقول للخادم: الك حاجة؟ قال: حتى كان ذات يوم فقال: يا رسول الله! حاجتي. قال: وما حاجتك؟ قال: حاجتي ان تشفع لي يوم القيامة. قال: ومن دلك على هذا؟ قال: ربي. قال: اما لا، فاعني بكثرة السجود".-" كان مما يقول للخادم: ألك حاجة؟ قال: حتى كان ذات يوم فقال: يا رسول الله! حاجتي. قال: وما حاجتك؟ قال: حاجتي أن تشفع لي يوم القيامة. قال: ومن دلك على هذا؟ قال: ربي. قال: أما لا، فأعني بكثرة السجود".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم یا خادمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادم کو جو کچھ کہا کرتے تھے، اس میں سے ایک بات یہ تھی: (آپ پوچھتے): ”کیا تیری کوئی ضرورت ہے؟“ بالآخر ایک دن خادم نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تیری کیا حاجت ہے؟“ اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ آپ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (مطالبے پر) تیری رہنمائی کس نے کی؟“ اس نے کہا: میرے پروردگار نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں! تو پھر تو سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔“
-" كان يتخلف في المسير، فيزجي الضعيف ويردف ويدعو لهم".-" كان يتخلف في المسير، فيزجي الضعيف ويردف ويدعو لهم".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلنے میں پیچھے رہتے، کمزور کو چلاتے اور اپنے پیچھے بٹھاتے تھے اور صحابہ کے لیے دعا کرتے تھے۔
-" كان مما يقول للخادم: الك حاجة؟ قال: حتى كان ذات يوم فقال: يا رسول الله! حاجتي. قال: وما حاجتك؟ قال: حاجتي ان تشفع لي يوم القيامة. قال: ومن دلك على هذا؟ قال: ربي. قال: اما لا، فاعني بكثرة السجود".-" كان مما يقول للخادم: ألك حاجة؟ قال: حتى كان ذات يوم فقال: يا رسول الله! حاجتي. قال: وما حاجتك؟ قال: حاجتي أن تشفع لي يوم القيامة. قال: ومن دلك على هذا؟ قال: ربي. قال: أما لا، فأعني بكثرة السجود".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم یا خادمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادم کو جو کچھ کہا کرتے تھے، اس میں سے یہ بات تھی: (آپ پوچھتے:)”کیا تیری کوئی ضرورت ہے؟“ بالآخر ایک دن خادم نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا: ”تیری کیا حاجت ہے؟“ اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ آپ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (مطالبے پر) تیری رہنمائی کس نے کی؟“، اس نے کہا: میرے پروردگار نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں! تو پھر تو سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔“
-" كان يجلس على الارض وياكل على الارض ويعتقل الشاة ويجيب دعوة المملوك على خبز الشعير".-" كان يجلس على الأرض ويأكل على الأرض ويعتقل الشاة ويجيب دعوة المملوك على خبز الشعير".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ جایا کرتے تھے، زمین پر بیٹھ کر ہی کھاتے تھے، بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور جو کی روٹی پہ غلام کی دعوت قبول کر لیتے تھے۔
-" كان يركب الحمار ويخصف النعل ويرقع القميص، ويقول: من رغب عن سنتي فليس مني".-" كان يركب الحمار ويخصف النعل ويرقع القميص، ويقول: من رغب عن سنتي فليس مني".
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہوتے تھے، جوتا سلائی کرتے تھے اور قمیص کو خود ہی پیوند لگا لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔“