سلسله احاديث صحيحه
الاخلاق والبروالصلة
اخلاق، نیکی کرنا، صلہ رحمی
فاسق کے بیانات کی تحقیق کرنا
حدیث نمبر: 2528
- (كان بعث الوليد بن عقبة بن أبي مُعيط إلى بني المُصطَلِقِ ليأخذ منهم الصدقات، وأنه لما أتاهم الخبرُ فرحوا، وخرجوا ليتلقَّوا رسولَ رسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّه لَمَّا حُدِّثَ الوليدُ أنهم خرجوا يَتَلَقَّوْنَهُ رجع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ فقال: يا رسول الله! إن بني المصطلق قد مَنَعُوا الصدقة. فَغَضِبَ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من ذلك غضباً شديداً، فبينما هو يُحَدِّثُ نفسه أن يغزوهم إذ أتاه الوفد، فقالوا: يا رسول الله! إنا حُدِّثنا أن رسولك رجع من نصف الطريق، وإنّا خشينا أن يكون إنما رّدَّهُ كتابٌ جاءه منك لغضبٍ غَضِبتَهُ علينا، وإنا نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله! وأن رسول الله اسْتَعْتَبَهُم (!) وهَمَّ بهم، فأنزل الله عز وجل عُذرَهُم في الكتاب: (يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا أن تصيبوا قوماً بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين) [الحجرات/6]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو مصطلق کی طرف صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب ان لوگوں کو ان کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے استقبال کے لیے باہر نکلے، لیکن جب ولید کو ان کے استقبال کے طور پر باہر نکلنے کا بتلایا گیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لوٹ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! بنو مصطلق نے صدقہ روک لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہ بہت غصہ آیا، ابھی آپ ان کے خلاف جہاد کا سوچ ہی رہے تھے کہ (بنو مصطلق) کا وفد آپ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کا قاصد نصف طریق سے واپس لوٹ آیا ہے اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو ہم پر غصہ آیا ہو، جس کی وجہ سے آپ نے قاصد کو رقعہ لکھ کر واپس بلا لیا ہو، ہم تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو راضی کیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے خلاف جنگ کرنے کا) ارادہ کر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے (اپنی) کتاب میں ان کا عذر نازل فرمایا۔ ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہیں کوئی خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پریشان ہونا پڑے۔“