سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”نذر قسم ہی ہے، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔“
-" النذر نذران، فما كان لله فكفارته الوفاء، وما كان للشيطان فلا وفاء فيه وعليه كفارة يمين".-" النذر نذران، فما كان لله فكفارته الوفاء، وما كان للشيطان فلا وفاء فيه وعليه كفارة يمين".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نذر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ?? ایک نذر اللہ کے لیے ہوتی ہے، اس کفارہ اس کو پورا کرنا ہے، اور ایک نذر شیطان کے لیے ہوتی ہے، اس کو پورا نہیں کرنا، لیکن اس پر قسم کا کفارہ پڑ جائے گا۔
- (بئسما جزيتيها! ليس هذا نذرا، إنما النذر ما ابتغي به وجه الله. قاله في امراة ابي ذر التي نذرت: إن نجت من الكفار على راحلته - صلى الله عليه وسلم - ان تنحرها!).- (بئسما جزيتيها! ليس هذا نذراً، إنما النذر ما ابتغي به وجه الله. قاله في امرأة أبي ذر التي نذرت: إن نجت من الكفار على راحلته - صلى الله عليه وسلم - أن تنحرها!).
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ”قصوا“ پر بیٹھ کر آئی، یہاں تک کہ اسے مسجد کے پاس بٹھا دیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے اس پر مجھے نجات دے دی تو میں اس کے جگر اور کوہان سے ضرور کھاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تو نے تو اسے بہت برا بدلہ دیا ہے۔ یہ نذر نہیں ہے، نذر تو صرف وہی ہے جس سے اللہ کی خوشنودی تلاش کی جا ئے۔“
-" اوف بنذرك فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله ولا في قطيعة رحم ولا فيما لا يملك ابن آدم" (¬1).-" أوف بنذرك فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله ولا في قطيعة رحم ولا فيما لا يملك ابن آدم" (¬1).
سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ مقام پر اونٹ نحر کرے گا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے بوانہ مقام پر اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت ہے، جس کی عبادت کی جاتی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہاں ان (مشرکوں) کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر۔ کیونکہ کوئی نذر نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں، قطع رحمی میں اور اس چیز میں جس کا ابن آدم مالک ہی نہ ہو۔“
-" قال الله عز وجل: لا ياتي النذر على ابن آدم بشيء لم اقدره عليه، ولكنه شيء استخرج به من البخيل يؤتيني عليه ما لا يؤتيني على البخل. وفي رواية: ما لم يكن آتاني من قبل".-" قال الله عز وجل: لا يأتي النذر على ابن آدم بشيء لم أقدره عليه، ولكنه شيء أستخرج به من البخيل يؤتيني عليه ما لا يؤتيني على البخل. وفي رواية: ما لم يكن آتاني من قبل".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نذر ابن آدم کو وہ چیز نہیں دلاتی، جو میں نے اس کے مقدر میں نہ لکھی ہو۔ نذر ایک ایسی چیز ہے کہ میں جس کے ذریعے بخیل سے مال نکال لیتا ہوں۔ وہ اس کی وجہ سے مجھے (مال) دیتا ہے جو (عام حالات میں) وہ بخل کی وجہ سے نہیں دیتا۔ اور ایک روایت میں ہے: ” جو اس نے اس سے پہلے مجھے نہیں دیا تھا۔“
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری بہن نے نذر مانی یہ کہ وہ ننگے پاؤں اور ننگے سر چل کر کعبہ کی طرف جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا: ”اس کو کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس نے نذر مانی ہے کہ یہ کعبہ کی طرف ننگے پاؤں اور ننگے سر چل کر جائے گی۔ آپ نے فرمایا: ”اس کو حکم دو کہ سوار ہو جائے، چادر اوڑھے، حج کرے اور ایک قربانی ذبح کر دے۔“