-" ما يسرني ان لي احدا ذهبا تاتي علي ثالثة وعندي منه دينار إلا دينار ارصده لدين علي".-" ما يسرني أن لي أحدا ذهبا تأتي علي ثالثة وعندي منه دينار إلا دينار أرصده لدين علي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرے پاس احد پہاڑ کے بقدر سونا ہو اور (تیسرے دن کی) رات آ جائے اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی میرا ہو، مگر وہ (سونا) جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لیے روک لوں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ”عائشہ! سونے کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس لے کر آؤ۔“ میں لے آئی۔ وہ نو یا پانچ دینار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اپنے رب کے بارے میں کیا گمان ہو گا۔ اگر وہ اپنے رب کو اس حال میں ملے کہ یہ سونا اس کے پاس ہو؟ اب اس طرح کرو کہ اس کو (فوراً) خرچ کر دو۔“ یزید راوی نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر کے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی کیفیت بیان کی)۔
-" ما ظن محمد بالله لو لقي الله عز وجل، وهذه عنده؟ انفقيها".-" ما ظن محمد بالله لو لقي الله عز وجل، وهذه عنده؟ أنفقيها".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ”عائشہ! سونے کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس لے کر آؤ۔“ وہ نو یا پانچ دینار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے بارے میں کیا گمان ہو گا، اگر وہ اپنے رب کو اس حال میں ملے کہ یہ سونا اس کے پاس ہو؟ اب اس طرح کرو کہ اس کو (فوراً) خرچ کر دو۔“ یزید راوی نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر کے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی کیفیت بیان کی)۔
-" ما ظن نبي الله لو لقي الله عز وجل وهذه عنده؟ يعني ستة دنانير او سبعة".-" ما ظن نبي الله لو لقي الله عز وجل وهذه عنده؟ يعني ستة دنانير أو سبعة".
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دن میں اور عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا: اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روز دیکھتے، جس دن آپ بیمار ہوئے اور میرے پاس آپ کے چھ دینار تھے۔ موسی راوی کا بیان ہے کہ چھ یا سات دینار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کو خرچ کر دینے کا حکم صادر فرمایا، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کی وجہ سے (آپ کی خدمت میں) مصروف تھی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاء دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ان کے بارے میں دریافت کیا اور فرمایا: ”ان چھ یا سات دیناروں کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: بخدا! آپ کی تکلیف نے اتنا مشغول کر دیا کہ میں ان کو خرچ نہ کر سکی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دینار منگوائے اور اپنی ہتھیلی پر رکھے اور فرمایا: ”اللہ کے نبی کا (اپنے رب کے بارے میں) کیا گمان ہو گا، اگر وہ اس کو اس حال میں ملے کہ یہ اس کے پاس ہوں۔“ یعنی یہ چھ یا ساتھ دینار۔
ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں: ایک انصاری آدمی کا جنازہ پڑھنے کے لیے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب واپس پلٹے تو ایک قریشی عورت کا داعی ہمیں ملا اور کہا: (اے اللہ کے رسول!) فلاں عورت آپ کو آپ کے ساتھیوں سمیت کھانے کے لیے بلا رہی ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور (گھر میں جا کر) بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا شروع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے بھی۔ لیکن صحابہ نے جب دیکھا کہ آپ کا لقمہ آپ کے منہ میں ہے اور آپ اسے نگل نہیں رہے، تو وہ بھی کھانا کھانے سے رک گئے اور دیکھنے لگ گئے کہ آیا آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ نے (منہ سے) لقمہ نکالا اور اسے پھینک دیا اور فرمایا: ”مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایسی بکری کا گوشت ہے، جو مالک کی اجازت کے بغیر لی گئی ہے، اس طرح کرو کہ یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو۔“
-" لقد خرج ابو بكر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تاجرا إلى بصرى، لم يمنع ابا بكر الضن برسول الله صلى الله عليه وسلم شحه على نصيبه من الشخوص للتجارة، وذلك كان لإعجابهم كسب التجارة، وحبهم للتجارة، ولم يمنع رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر من الشخوص في تجارته لحبه صحبته وضنه بابي بكر، - فقد كان بصحبته معجبا - لاستحسان (وفي رواية: لاستحباب) رسول الله صلى الله عليه وسلم للتجارة وإعجابه بها".-" لقد خرج أبو بكر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تاجرا إلى بصرى، لم يمنع أبا بكر الضن برسول الله صلى الله عليه وسلم شحه على نصيبه من الشخوص للتجارة، وذلك كان لإعجابهم كسب التجارة، وحبهم للتجارة، ولم يمنع رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر من الشخوص في تجارته لحبه صحبته وضنه بأبي بكر، - فقد كان بصحبته معجبا - لاستحسان (وفي رواية: لاستحباب) رسول الله صلى الله عليه وسلم للتجارة وإعجابه بها".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تجارت کی غرض سے بصری کی طرف روانہ ہوئے، وہ تجارت میں اتنی دلچسپی لے رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت بھی ان کو نہ روک سکی، دراصل ان لوگوں کو تجارت کی کمائی پسند تھی اور وہ تجارت سے محبت کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تجارت میں دلچسپی لینے سے نہیں روکا، حالانکہ آپ بھی ان کی صحبت کو پسند کرتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پسند تھی، لیکن (وہ تجارت کا پیشہ اپنانے کو ترجیح دیتے تھے، کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کو اچھا سمجھتے تھے اور اس کو پسند کرتے تھے۔
-" الشيخ يكبر ويضعف جسمه، وقلبه شاب على حب اثنتين: طول الحياة وحب المال".-" الشيخ يكبر ويضعف جسمه، وقلبه شاب على حب اثنتين: طول الحياة وحب المال".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی بوڑھا اور اس کا جسم کمزور ہو رہا ہوتا ہے، لیکن اس کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہو رہا ہوتا ہے: زندگی اور مال کی محبت۔“
-" لو كان لابن آدم واديان من مال (وفي رواية: من ذهب) لابتغى [واديا] ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب".-" لو كان لابن آدم واديان من مال (وفي رواية: من ذهب) لابتغى [واديا] ثالثا، ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ابن آدم کے پاس مال یا سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ ضرور تیسری وادی تلاش کرے گا، (سیدھی بات ہے کہ) مٹی ہی ہے جو ابن آدم کے پیٹ کو بھر سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں، جو اس کی طرف توبہ کرتا ہے۔“ یہ حدیث سیدنا انس، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر اور سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہم سمیت صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے۔
-" إن الله عز وجل قال: إنا انزلنا المال لإقام الصلاة وإيتاء الزكاة ولو كان لابن آدم واد لاحب ان يكون إليه ثان ولو كان له واديان لاحب ان يكون إليهما ثالث، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ثم يتوب الله على من تاب".-" إن الله عز وجل قال: إنا أنزلنا المال لإقام الصلاة وإيتاء الزكاة ولو كان لابن آدم واد لأحب أن يكون إليه ثان ولو كان له واديان لأحب أن يكون إليهما ثالث، ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب، ثم يتوب الله على من تاب".
سیدنا ابوواقد لیشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو ہم آپ کے پاس آتے تھے۔ ایک دن آپ نے ہمیں بیان کیا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے تو نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کے لیے مال نازل کیا ہے، اگر آدم کے بیٹے کے پاس ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اگر اس کے پاس دو وادیاں ہوں تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس تیسری بھی ہو۔ بس مٹی ہی ہے جو آدم کے پیٹ کو بھر دیتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرتا ہے، وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“
- (صلاح اول هذه الامة بالزهد واليقين، ويهلك آخرها بالبخل والامل).- (صلاحُ أول هذه الأمّة بالزهد واليقين، ويهلك آخرُها بالبخل والأمل).
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کے پہلے لوگوں کی راست روی (اور درستگی) کی بنیاد مذہبیت، (عبادت گزاری) اور یقین پر تھی اور آخری لوگوں کی ہلاکت بخیلی اور امیدوں کی وجہ سے ہو گی۔“
-" إن الدنيا خضرة حلوة وإن الله عز وجل مستخلفكم فيها لينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء، فإن اول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء".-" إن الدنيا خضرة حلوة وإن الله عز وجل مستخلفكم فيها لينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء، فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک دنیا سرسبز و شاداب (پرکشش) اور میٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو اس میں خلیفہ بنانا ہے تاکہ وہ جانچ سکے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ پس دنیا اور عورتوں سے بچ کر رہنا، کیونکہ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں میں واقع ہوا۔“