-" كل مال النبي صلى الله عليه وسلم صدقة إلا ما اطعمه اهله وكساهم، إنا لا نورث".-" كل مال النبي صلى الله عليه وسلم صدقة إلا ما أطعمه أهله وكساهم، إنا لا نورث".
ابوبختری کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی سے حدیث سنی، وہ مجھے پسند آئی۔ میں نے اسے کہا: یہ مجھے لکھ دو۔ اتنے میں ان کے پاس مکتوب لایا گیا، اس میں لکھا ہوا تھا: سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا) مطالبہ کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان (چار صحابہ) سے کہا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نبی کا سارا مال صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے، ہاں وہ اپنے اہل خانہ کو کھلا اور پہنا سکتا ہے، (یعنی ان کا خرچ مستثنی کیا جا سکتا ہے)، ہم (انبیاء) کے وارث نہیں بنائے جاتے۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم نے سنی ہے)۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مال اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے اور زائد مال کا صدقہ دیتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو دو سالوں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ اس چیز کے نگران بنے رہے، انہوں نے وہی کچھ کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔
-" كان يدعى إلى خبز الشعير والإهالة السنخة فيجيب".-" كان يدعى إلى خبز الشعير والإهالة السنخة فيجيب".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور چربی کے خراب (اور سڑ جانے والے سالن) کی دعوت دی جاتی تھی، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قبول کرتے تھے۔
-" إنما انا خازن وإنما يعطي الله عز وجل، فمن اعطيته عطاء عن طيب نفس، فهو ان يبارك لاحدكم. ومن اعطيته عطاء عن شره وشره مسالة فهو كالآكل ولا يشبع".-" إنما أنا خازن وإنما يعطي الله عز وجل، فمن أعطيته عطاء عن طيب نفس، فهو أن يبارك لأحدكم. ومن أعطيته عطاء عن شره وشره مسألة فهو كالآكل ولا يشبع".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خازن (یعنی خزانچی) ہوں اور عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جس کو میں خوش دلی (اور رضا مندی) سے دوں گا، اس کے لیے اس میں برکت ہو گی اور جس کو میں اس کی لالچ اور سوال کی حرص کی وجہ سے دوں گا، تو وہ تو اس آدمی کی طرح ہو گا جو کھائے جا رہا ہو، لیکن سیر نہ ہوتا ہو۔“
-" بينما رجل بفلاة إذا سمع رعدا في سحاب، فسمع فيه كلاما: اسق حديقة فلان ـ باسمه ـ فجاء ذلك السحاب إلى حرة فافرغ ما فيه من ماء، ثم جاء إلى اذناب شرج فانتهى إلى شرجه، فاستوعبت الماء ومشى الرجل مع السحابة حتى انتهى إلى رجل قائم في حديقة له يسقيها. فقال: يا عبد الله ما اسمك؟ قال: ولم تسال؟ قال: إني سمعت في سحاب هذا ماؤه: اسق حديقة فلان باسمك، فما تصنع فيها إذا صرمتها؟ قال: اما إن قلت ذلك فإني اجعلها على ثلاثة اثلاث، اجعل ثلثا لي ولاهلي وارد ثلثا فيها واجعل ثلثا للمساكين والسائلين وابن السبيل (¬1)".-" بينما رجل بفلاة إذا سمع رعدا في سحاب، فسمع فيه كلاما: اسق حديقة فلان ـ باسمه ـ فجاء ذلك السحاب إلى حرة فأفرغ ما فيه من ماء، ثم جاء إلى أذناب شرج فانتهى إلى شرجه، فاستوعبت الماء ومشى الرجل مع السحابة حتى انتهى إلى رجل قائم في حديقة له يسقيها. فقال: يا عبد الله ما اسمك؟ قال: ولم تسأل؟ قال: إني سمعت في سحاب هذا ماؤه: اسق حديقة فلان باسمك، فما تصنع فيها إذا صرمتها؟ قال: أما إن قلت ذلك فإني أجعلها على ثلاثة أثلاث، أجعل ثلثا لي ولأهلي وأرد ثلثا فيها وأجعل ثلثا للمساكين والسائلين وابن السبيل (¬1)".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کسی صحرا میں تھا، اس نے بادل کی گرج سنی اور اس میں یہ آواز بھی سنی: فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو (باقاعدہ) اس آدمی کا نام بھی لیا گیا۔ وہ بادل ایک پتھریلی زمین کی طرف آیا اور اس پر پانی برسنے لگا۔ وہ پانی اوپر سے آنے والی نالیوں میں بہنے لگا، یہاں تک کہ ایک (اسی قسم کی ایک بڑی) نالی میں پہنچ گیا، اس (نالی) نے سارا پانی جمع کیا (اور اترائی میں ایک سمت کی طرف چل پڑی)۔ وہ آدمی بھی بادل کے ساتھ چل پڑا اور ایک ایسے آدمی تک جا پہنچا جو اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ اس نے کہا: اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: تو کیوں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: جس بادل کا یہ پانی ہے، میں نے اس میں یہ آواز سنی کہ فلاں کے باغ کو پانی پلاؤ، اس آواز میں تیرا نام لیا گیا تھا، (اب تو مجھے یہ بتا کہ) فصل کی کٹائی اور پھلوں کے چناؤ کے وقت تو اس میں کیا عمل کرتا ہے؟ اس نے کہا: اگر تو نے پوچھ ہی لیا ہے تو (تفصیل یہ ہے کہ) میں پیداوار کے تین حصے کرتا ہوں، ایک تہائی حصہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رکھ لیتا ہوں، ایک تہائی حصہ دوبارہ کاشت کر دیتا ہوں اور ایک تہائی حصہ مسکینوں، سوالیوں اور مسافروں کو دے دیتا ہوں۔“
-" دعوا الناس فليصب بعضهم من بعض، فإذا استنصح رجل اخاه فلينصح له".-" دعوا الناس فليصب بعضهم من بعض، فإذا استنصح رجل أخاه فلينصح له".
حکیم بن ابی یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور وہ صحابی رسول سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کو چھوڑ دو، وہ آپس میں ایک دوسرے سے معاملہ کرتے رہیں اور جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے نصیحت طلب کرے تو وہ (اس معاملے میں) اس کی خیر خواہی کرے۔“
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس نے آٹا چھان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی پکائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: یہ کھانا ہے، جو ہم اپنے علاقے میں پکاتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ آپ کے لیے بھی ایک روٹی پکا کر لاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (چھان) اس میں دوبارہ ڈال دو اور اس کو پھر گوندھو۔“
-" إن الله عز وجل يبغض البليغ من الرجال، الذي يتخلل بلسانه تخلل الباقرة بلسانها".-" إن الله عز وجل يبغض البليغ من الرجال، الذي يتخلل بلسانه تخلل الباقرة بلسانها".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ آدمیوں میں سے اس بلاغت جھاڑنے والے شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو (منہ پھاڑ پھاڑ کر تکلف و تصنع سے گفتگو کرتے ہوئے) اپنی زبان کو گائے کی جگالی کرنے کی طرح باربار پھیرتا ہے۔“
-" سيكون قوم ياكلون بالسنتهم، كما تاكل البقرة من الارض".-" سيكون قوم يأكلون بألسنتهم، كما تأكل البقرة من الأرض".
عمر بن سعد کہتے ہیں: مجھے اپنے باپ سے کوئی کام پڑ گیا تھا، جبکہ ابوحیان نے مجمع سے یوں بیان کیا: عمر بن سعد کو اپنے باپ سے کوئی حاجت تھی، لیکن انہوں نے اپنی ضرورت کا اظہار کرنے سے پہلے (تمہیداً) ایسی باتیں کیں، جیسے عام لوگ (اپنی ضروریات تک) پہنچنے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن سعد اپنے بیٹے کی باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے۔ جب بیٹا اپنی بات سے فارغ ہوا تو باپ نے کہا: بیٹا! کیا تم اپنی بات مکمل کر چکے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ باپ نے کہا: تیرا یہ کلام سننے کے بعد (مجھے اندازہ ہوا ہے کہ) نہ تو اپنی حاجت سے دور ہے اور نہ تو اپنے بارے میں مجھ سے زیادہ رغبت رکھنے والا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی زبانوں سے اس طرح کھائیں گے، جیسے (سرسبز و شاداب) زمین پر چرنے والی گائے کھاتی ہے۔“
-" قال إبليس: كل خلقك بينت رزقه، ففيما رزقي؟ قال: فيما لم يذكر اسمي عليه".-" قال إبليس: كل خلقك بينت رزقه، ففيما رزقي؟ قال: فيما لم يذكر اسمي عليه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابلیس نے کہا: (اے اللہ!) تو نے اپنی ساری مخلوق کا رزق بیان کر دیا میرا رزق کس میں ہے؟ اللہ نے فرمایا: جس چیز پر میرا نام نہ لیا گیا ہو۔“