-" من ادى زكاة ماله طيبة بها نفسه يريد وجه الله والدار الآخرة لم يغيب شيئا من ماله، واقام الصلاة وادى الزكاة، فتعدى عليه الحق، فاخذ سلاحه فقاتل، فقتل، فهو شهيد".-" من أدى زكاة ماله طيبة بها نفسه يريد وجه الله والدار الآخرة لم يغيب شيئا من ماله، وأقام الصلاة وأدى الزكاة، فتعدى عليه الحق، فأخذ سلاحه فقاتل، فقتل، فهو شهيد".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، آپ کے پاس کچھ صحابہ کرام بیٹھے آپ کے ساتھ محو گفتگو تھے، اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور پوچھا: کھجوروں کی اتنی (مقدار) پر کتنی زکوٰۃ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنی کھجوریں۔“ وہ کہنے لگا: فلاں آدمی نے مجھ پر زیادتی کی ہے اور اتنی کھجوریں لی ہیں، یعنی ایک صاع زیادہ وصول کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت کیا ہو گا جب تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جو تم پر اس سے کہیں زیادہ زیادتی کریں گے۔“ لوگ غور و حوض میں پڑ گئے اور اس حدیث نے انہیں ششدر کر دیا، حتیٰ کہ ایک آدمی یوں بول اٹھا: اے الله کے رسول! اگر ایک آدمی آپ سے دور اپنے اونٹوں، مویشیوں اور کھیتی میں فروکش ہے اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے، لیکن اس پر زیادتی کی جاتی ہے اب وہ کیا کرے اور وہ ہے بھی غائب؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی، اس حال میں کہ اس کا نفس راضی ہو اور وہ اللہ کی رضا مندی اور یوم آخرت کا متلاشی ہو، اس نے اپنے مال کا کوئی حصہ نہیں چھپایا، اور نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی، لیکن اس پر زیادتی کی گئی، جس کی وجہ سے اس نے اپنا اسلحہ لیا اور لڑنا شروع کر دیا، لیکن قتل ہو گیا، تو وہ شہید ہے۔“
-" يا معشر المهاجرين! خمس إذا ابتليتم بهن واعوذ بالله ان تدركوهن: لم تظهر الفاحشة في قوم قط حتى يعلنوا بها إلا فشا فيهم الطاعون والاوجاع التي لم تكن مضت في اسلافهم الذين مضوا ولم ينقصوا المكيال والميزان إلا اخذوا بالسنين وشدة المؤنة وجور السلطان عليهم ولم يمنعوا زكاة اموالهم إلا منعوا القطر من السماء ولولا البهائم لم يمطروا ولم ينقضوا عهد الله وعهد رسوله إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم فاخذوا بعض ما في ايديهم وما لم تحكم ائمتهم بكتاب الله ويتخيروا مما انزل الله إلا جعل الله باسهم بينهم".-" يا معشر المهاجرين! خمس إذا ابتليتم بهن وأعوذ بالله أن تدركوهن: لم تظهر الفاحشة في قوم قط حتى يعلنوا بها إلا فشا فيهم الطاعون والأوجاع التي لم تكن مضت في أسلافهم الذين مضوا ولم ينقصوا المكيال والميزان إلا أخذوا بالسنين وشدة المؤنة وجور السلطان عليهم ولم يمنعوا زكاة أموالهم إلا منعوا القطر من السماء ولولا البهائم لم يمطروا ولم ينقضوا عهد الله وعهد رسوله إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم فأخذوا بعض ما في أيديهم وما لم تحكم أئمتهم بكتاب الله ويتخيروا مما أنزل الله إلا جعل الله بأسهم بينهم".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”مہاجرو! پانچ (آزمائشیں) ہیں جن میں تم مبتلا ہو گے اور میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ: (۱) جب کسی قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے اور وہ اعلانیہ اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان میں طاعون اور مختلف بیماریاں، جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں، پھیل جاتی ہیں۔ (۲) جب لوگ ماپ تول میں کمی کرتے ہیں تو انہیں قحط سالیاں، سخت تکلیفیں اور بادشاہوں کے ظلم دبوچ لیتے ہیں۔ (۳) جب لوگ زکوٰۃ ادا کرنے سے رک جاتے ہیں تو آسمان سے بارش کا نزول بند ہو جاتا ہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر بارش نازل نہ ہوتی۔ (۴) جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمنوں جن کا تعلق ان کے غیروں سے ہوتا ہے کو مسلط کر دیتا ہے جو ان سے ان کے بعض اموال چھین لیتے ہیں اور (۵) جب مسلمانوں کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور اس کے نازل کردہ قوانین کو ترجیح نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ اس کو آپس میں لڑا دیتا ہے۔“
-" ليس فيما دون خمس من الإبل صدقة، ولا في الاربع شيء، فإذا بلغت خمسا، ففيها شاة إلى ان تبلغ تسعا، فإذا بلغت عشرا، ففيها شاتان إلى ان تبلغ اربع عشرة، فإذا بلغت خمس عشرة، ففيها ثلاث شياه إلى ان تبلغ تسع عشرة، فإذا بلغت عشرين، ففيها اربع شياه إلى ان تبلغ اربعا وعشرين، فإذا بلغت خمسا وعشرين، ففيها بنت مخاض، إلى خمس وثلاثين، فإذا لم تكن بنت مخاض فابن لبون ذكر، فإن زادت بعيرا ففيها بنت لبون إلى ان تبلغ خمسا واربعين، فإن زادت بعيرا، ففيها حقة، إلى ان تبلغ ستين، فإن زادت بعيرا، ففيها جذعة، إلى ان تبلغ خمسا وسبعين، فإن زادت بعيرا ففيها بنتا لبون، إلى ان تبلغ تسعين، فإن زادت بعيرا، ففيها حقتان، إلى ان تبلغ عشرين ومائة، ثم في كل خمسين حقة، وفي كل اربعين بنت لبون".-" ليس فيما دون خمس من الإبل صدقة، ولا في الأربع شيء، فإذا بلغت خمسا، ففيها شاة إلى أن تبلغ تسعا، فإذا بلغت عشرا، ففيها شاتان إلى أن تبلغ أربع عشرة، فإذا بلغت خمس عشرة، ففيها ثلاث شياه إلى أن تبلغ تسع عشرة، فإذا بلغت عشرين، ففيها أربع شياه إلى أن تبلغ أربعا وعشرين، فإذا بلغت خمسا وعشرين، ففيها بنت مخاض، إلى خمس وثلاثين، فإذا لم تكن بنت مخاض فابن لبون ذكر، فإن زادت بعيرا ففيها بنت لبون إلى أن تبلغ خمسا وأربعين، فإن زادت بعيرا، ففيها حقة، إلى أن تبلغ ستين، فإن زادت بعيرا، ففيها جذعة، إلى أن تبلغ خمسا وسبعين، فإن زادت بعيرا ففيها بنتا لبون، إلى أن تبلغ تسعين، فإن زادت بعيرا، ففيها حقتان، إلى أن تبلغ عشرين ومائة، ثم في كل خمسين حقة، وفي كل أربعين بنت لبون".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ سے کم اونٹوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور نہ چار اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، جب ان کی تعداد پانچ سے نو تک ہو تو ایک بکری، جب دس سے چودہ تک ہو تو دو بکریاں، جب پندرہ سے انیس تک ہو تو تین بکریاں اور بیس سے چوبیس تک ہو تو چار بکریاں زکوٰۃ میں دی جایئں گی۔ جب اونٹوں کی تعداد پچیس سے بڑھ کر پینتیس ہو جائے تو اس تعداد پر بنت مخاض(ایک سالہ اونٹنی)۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ابن لبون (دو سالہ نر بچہ) دے دیا جائے گا۔ جب تعداد چھتیس سے بڑھ کر پینتالیس تک پہنچ جائے تو بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنی)، اگر تعداد چھیالیس ہو جائے تو ساٹھ تک ایک عددِ حقہّ (تین سالہ اونٹنی)، اگر تعداد اکسٹھ ہو جائے تو پچھتر تک جذعہ (چار سالہ اونٹنی)، اگر اس سے تعداد بڑھ جائے تو نوے تک دو عدد بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنیاں)، اگر اس سے تعداد بڑھ جائے تو ایک سو بیس تک دو عدد حقے (تین سالہ اونٹنیاں)۔ (ایک سو بیس کی تعداد) کے بعد ہر پچاس پر حقہ (تین سالہ اونٹنی) اور ہر چالیس پر بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنی) زکوٰۃ میں دی جائے گی۔“
-" لا ياتي رجلا مولاه يساله فضلا عنده فيمنعه إياه، إلا دعي له يوم القيامة شجاعا يتلمظ فضله الذي منع".-" لا يأتي رجلا مولاه يسأله فضلا عنده فيمنعه إياه، إلا دعي له يوم القيامة شجاعا يتلمظ فضله الذي منع".
بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے آزاد شدہ (یا کسی رشتہ دار) کے پاس آ کر اس سے اس کی ضرورت سے زائد کسی چیز کا سوال کرتا ہے، لیکن وہ نہیں دیتا تو روز قیامت اس کے لیے ایک سانپ لایا جائے گا جو اس کی روکی ہوئی زائد ضرورت چیز کو منہ میں پھیرائے گا۔“
-" إنا لا نقبل شيئا من المشركين".-" إنا لا نقبل شيئا من المشركين".
حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد جاہلیت میں اس کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ جب آپ نے نبوت کا دعوی کیا اور مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے اور حکیم بن حزام، جبکہ وہ کافر تھے، حج کے موسم میں مکہ میں آئے اور دیکھا کہ ذی یزن کی ایک عمدہ پوشاک فروخت کی جا رہی تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دینے کے لیے وہ خرید لی اور مدینہ پہنچ گئے۔ جب انہوں نے یہ پوشاک بطور ہدیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنا چاہی تو آپ نے انکار کر دیا۔ عبید اللہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم مشرکین سے کوئی چیز قبول نہیں کرتے، ہاں اگر آپ دینا ہی چاہتے ہیں تو ہم اسے قیمت کے بدلے خرید لیتے ہیں۔“ جب آپ نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار کیا تو میں نے (قیمت کے بدلے) دے دیا۔
-" إني لا اقبل هدية مشرك".-" إني لا أقبل هدية مشرك".
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سلمی سے روایت ہے کہ عامر بن مالک بن جعفر، جسے «ملاعب الاسنة» یعنی تیروں سے کھیلنے والا کہا جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس حال میں کہ وہ مشرک تھا، آپ نے اس پر اسلام پیش کیا، لیکن اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتا۔“
-" 1 - ايما امرئ مسلم اعتق امرا مسلما كان فكاكه من النار، يجزي كل عضو منه عضوا منه، 2 - وايما امرئ مسلم اعتق امراتين مسلمتين كانتا فكاكه من النار، يجزي كل عضو فيهما عضوا منه. 3 - وايما امراة مسلمة اعتقت امراة مسلمة كانت فكاكها من النار، يجزي كل عضو منها عضوا منها".-" 1 - أيما امرئ مسلم أعتق امرأ مسلما كان فكاكه من النار، يجزي كل عضو منه عضوا منه، 2 - وأيما امرئ مسلم أعتق امرأتين مسلمتين كانتا فكاكه من النار، يجزي كل عضو فيهما عضوا منه. 3 - وأيما امرأة مسلمة أعتقت امراة مسلمة كانت فكاكها من النار، يجزي كل عضو منها عضوا منها".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(۱) جس مسلمان نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے آزادی (کا سبب بنے گا)، اس کا ہر عضو اس کے ہر عضو کو کفایت کرے گا۔ (۲) جس مسلمان نے دو مسلمان عورتوں کو آزاد کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے چھٹکارے (کا سبب) بنیں گی، ان دونوں کے ہر دو عضو آزاد کنندہ کے ہر عضو کو کفایت کریں گے۔ (۳) جس مسلمان عورت نے مسلمان عورت کو آزاد کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے (آزادی کا سبب) بنے گی، اس کا ہر عضو اس کے ہر عضو کا کفایت کرے گا۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔“ میں نے کہا: کون سا غلام (آزاد کرنا) زیادہ فضلیت والا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ قیمتی اور عمدہ ہو۔“ میں نے کہا: اگر میں ایسا (غلام آزاد) نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی ہنر مند کی مدد کر دو یا کسی بے ہنر کا کام کر دو۔“ میں نے کہا: اگر مجھ میں یہ عمل کرنے کی بھی استطاعت نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو اپنے شر سے بچا کر رکھو، یہ بھی تمہارا اپنے نفس پر صدقہ ہو گا۔“
ـ (ترك كيتين، او ثلاث كيات! قاله لمن مات وترك دينارين او ثلاثة).ـ (تركَ كَيَّتَيْن، أو ثلاثَ كيّاتٍ! قاله لمن ماتَ وتركَ دينارينِ أو ثلاثة).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کاجنازہ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور پوچھا: اس نے (اپنی میراث میں)کیا چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ دو یا تین دینار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو داغنے کی جگہیں چھوڑ گیا ہے یا تین۔“
-" يكون كنز احدكم يوم القيامة شجاعا اقرع ويفر منه صاحبه ويطلبه ويقول: انا كنزك، قال: والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه".-" يكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع ويفر منه صاحبه ويطلبه ويقول: أنا كنزك، قال: والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا خزانہ روز قیامت (زہریلے) گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، لیکن وہ اس کا تعاقب کرتے ہوئے کہے گا: میں تیرا خزانہ (ہی) ہوں۔ اللہ کی قسم! وہ اس کا تعاقب کرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ اپنا ہاتھ پھیلائے گا اور وہ اسے اپنے منہ کا لقمہ بنا لے گا۔“