-" سددوا وقاربوا واعملوا وخيروا واعلموا ان خير اعمالكم الصلاة ولا يحافظ على الوضوء إلا مؤمن".-" سددوا وقاربوا واعملوا وخيروا واعلموا أن خير أعمالكم الصلاة ولا يحافظ على الوضوء إلا مؤمن".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، عمل کرو اور (بہترین امور کو) ترجیح دو اور جان لو کہ تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے اور مومن ہی ہے، جو وضو پر محافظت کرتا ہے۔“
- (إن حوضي لابعد من ايلة إلى عدن، والذي نفسي بيده لآنيته اكثر من عدد النجوم، ولهو اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل. والذي نفسي بيده! إني لاذود عنه الرجال كما يذود الرجل الإبل الغريبة عن حوضه. قيل: يا رسول الله! اتعرفنا؟ قال: نعم، تردون علي غرا محجلين؛ من اثر الوضوء، ليست لاحد غيركم).- (إنّ حوضي لأبعدُ من أيلة إلى عدن، والذي نفسي بيده لآنيتهُ أكثر من عدد النجوم، ولهو أشد بياضاً من اللبن، وأحلى من العسل. والذي نفسي بيده! إني لأذود عنه الرجال كما يذود الرجل الإبل الغريبة عن حوضه. قيل: يا رسول الله! أتعرفنا؟ قال: نعم، تردون علي غراً محجلين؛ من أثر الوضوء، ليست لأحد غيركم).
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””بیشک میرے حوض (کی وسعت) ایلہ سے عدن تک کی مسافت سے زیادہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کے پیالے ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، (اس کا پانی) دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں کچھ لوگوں کو اپنے حوض سے یوں دھتکاروں گا، جیسے کوئی آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ہم کو پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے اثر کی وجہ سے تمہاری پیشانی، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں چمکتے ہوں گے، یہ علامت (ومنقبت) کسی اور کی نہیں ہو گی۔“
-" تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء".-" تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء".
ابوحازم کہتے ہیں: میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا، انہوں نے نماز کے لیے وضو کیا، (بازو دھوتے وقت) اپنے ہاتھ کو بغلوں تک کھینچا۔ میں نے کہا: ابوہریرہ! یہ کون سا وضو ہے؟ انہوں نے کہا: بنو فروخ! تم بھی ادھر موجود ہو؟ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ یہاں ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا۔ میں نے تو اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کا زیور وہاں تک پہنچتا ہے، جہاں تک وضو (کا پانی) پہنچتا ہے۔“
-" ما من امتي من احد إلا وانا اعرفه يوم القيامة. قالوا: وكيف تعرفهم يا رسول الله في كثرة الخلائق؟ قال: ارايت لو دخلت صيرة فيها خيل دهم بهم وفيها فرس اغر محجل، اما كنت تعرفه منها؟ قال: بلى. قال: فإن امتي يومئذ غر من السجود، محجلون من الوضوء".-" ما من أمتي من أحد إلا وأنا أعرفه يوم القيامة. قالوا: وكيف تعرفهم يا رسول الله في كثرة الخلائق؟ قال: أرأيت لو دخلت صيرة فيها خيل دهم بهم وفيها فرس أغر محجل، أما كنت تعرفه منها؟ قال: بلى. قال: فإن أمتي يومئذ غر من السجود، محجلون من الوضوء".
سیدنا عبداللہ بن بسر مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنی امت کے ہر فرد کو قیامت والے دن پہچان لوں گا۔“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ انہیں کیسے پہچانیں گے، حالانکہ مخلوقات بکثرت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو کسی اصطبل میں داخل ہو اور وہاں کالے سیاہ گھوڑے ہوں، لیکن ان میں ایک گھوڑے کی پیشانی اور ٹانگیں سفید ہوں تو آیا تو اس گھوڑے کو پہچان لے گا؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر سجدہ کرنے کی وجہ سے میری امت کی پیشانی اور وضو کرنے کی وجہ سے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ (اس امتیازی علامت کی وجہ سے میں انہیں پہچان لوں گا)۔“
- (يا ابا ذر..! يجزئك الصعيد ولو لم تجد الماء عشرين سنة (وفي رواية: عشر سنين) ؛ فإذا وجدته فامسه جلدك).- (يا أبا ذر..! يُجْزِئُكَ الصَّعِيدُ وَلَوْ لَم تَجِدِ الماءَ عِشْرِينَ سَنَةً (وفي روايةٍ: عَشْرَ سِنِينَ) ؛ فإذا وَجَدْتَهُ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ربذہ مقام پر اپنی بکریوں میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: ”ابوذر! لیکن وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار آواز دی، لیکن وہ خاموش رہے، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! تیری ماں تجھے گم پائے۔“ اب کی بار انہوں نے کہا: میں جنبی ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی کو پانی لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پانی لے کر آئی تو انہوں نے اپنی سواری کی اوٹ میں پردہ کر کے غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: ”(ایسی صورت میں) تجھے مٹی کافی ہے، اگرچہ بیس سال یا دس سال پانی نہ ملے، جب تو پانی پا لے تو اسے اپنے چمڑے کے ساتھ لگا، (یعنی غسل کرے)۔“
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے بارے میں فرمایا: ”چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک دفعہ ہاتھوں کو (مٹی پر مارا جائے)۔“
-" كان يخرج يهريق الماء، فيتمسح بالتراب، فاقول: يا رسول الله! إن الماء منك قريب؟ فيقول: وما يدريني لعلي لا ابلغه".-" كان يخرج يهريق الماء، فيتمسح بالتراب، فأقول: يا رسول الله! إن الماء منك قريب؟ فيقول: وما يدريني لعلي لا أبلغه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کرتے اور مٹی سے استنجا کر لیتے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک پانی آپ کے قریب ہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا علم، شاید میں وہاں تک نہ پہنچ سکوں۔“
-" يكفيك الماء ولا يضرك اثره".-" يكفيك الماء ولا يضرك أثره".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ خولہ بنت یسار رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے، جس میں مجھے حیض بھی آ جاتا ہے، تو اس کے بارے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو پاک ہو جائے تو اس کو دھو لیا کر اور اس میں نماز پڑھ لیا کر۔“ اس نے کہا: اگر اس میں سے خون نہ نکلے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس تجھے پانی ہی کافی ہے اور اس کا نشان تجھے نقصان نہیں دے گا۔
-" إذا اصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة فلتقرصه ثم لتنضحه بالماء (وفي رواية: ثم اقرصيه بماء ثم انضحي في سائره) ثم لتصلي فيه".-" إذا أصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة فلتقرصه ثم لتنضحه بالماء (وفي رواية: ثم اقرصيه بماء ثم انضحي في سائره) ثم لتصلي فيه".
سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا: اگر ہم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے، تو وہ (اس کو پاک کرنے کے لیے) کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے، تو وہ (پانی کے ساتھ) اس کو ملے، پھر اس پر پانی ڈال کر (اس کو دھو لے)۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اس کو پانی کے ساتھ مل، پھر باقی ماندہ پر پانی ڈال کر (اس کو دھو لے)، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“