-" إن هذا الدين يسر ولن يشاد هذا الدين احد إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وابشروا واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة".-" إن هذا الدين يسر ولن يشاد هذا الدين أحد إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وأبشروا واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ دین آسان ہے، جو بھی اس دین سے زور آزمائی کرے گا یہ اس کو پچھاڑ دے گا۔ اس لیے راہ راست پر چلتے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوشخبریاں سناتے رہو اور صبح کے وقت، شام کے وقت اور رات کو کچھ وقت (عبادت کر کے) مدد حاصل کرتے رہو۔“
-" إياكم والغلو في الدين، فإنما هلك من كان قبلكم بالغلو في الدين".-" إياكم والغلو في الدين، فإنما هلك من كان قبلكم بالغلو في الدين".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) مجھے گھاٹی والی صبح کو فرمایا تھا، اس حال میں کہ آپ اپنی سواری پر کھڑے تھے: ”ادھر آؤ (کنکریاں) اٹھا کر لاؤ۔“ سو میں بیچ کی دو انگلیوں میں رکھ کر پھینکی جانے والی کنکریوں کے حجم کی کنکریاں اٹھا کر لایا، آپ نے ان کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور دو دفعہ فرمایا: ”ان جتنی کنکریاں ہوں۔“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ راوی حدیث یحییٰ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بات سمجھائی۔ اور فرمایا: ”دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے والے لوگ دین میں غلو کر نے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔“
-" لا يؤمن عبد حتى يؤمن بالقدر خيره وشره، حتى يعلم ان ما اصابه لم يكن ليخطئه، وان ما اخطاه لم يكن ليصيبه".-" لا يؤمن عبد حتى يؤمن بالقدر خيره وشره، حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه، وأن ما أخطأه لم يكن ليصيبه".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاتا وہ اچھی ہو یا بری اور جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہیں ہو جاتا کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
-" لا يزال امر هذه الامة مواتيا او مقاربا ما لم يتكلموا في الولدان والقدر".-" لا يزال أمر هذه الأمة مواتيا أو مقاربا ما لم يتكلموا في الولدان والقدر".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہمنوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا جب تک یہ لوگ بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
- (لا يبلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم ان ما اصابه لم يكن ليخطئه، وما اخطاه لم يكن ليصيبه).- (لا يَبلُغُ عَبدٌ حَقيقةَ الإيمانِ حتى يَعْلَمَ أنَّ ما أصابَهُ لم يَكُنْ لِيُخْطِئهُ، وما أَخْطَأَهُ لم يَكُنْ لِيُصيبَهُ).
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتی اور جو چیز تجاوز کر گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
-" كل شيء بقدر حتى العجز والكيس، او العجز والكيس".-" كل شيء بقدر حتى العجز والكيس، أو العجز والكيس".
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابہ کرام سے میری ملاقات ہوئی وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتیٰ کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔“
-" لكل شيء حقيقة، وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم ان ما اصابه لم يكن ليخطئه وما اخطاه لم يكن ليصيبه".-" لكل شيء حقيقة، وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه".
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔“
-" نزلت في اناس من امتي في آخر الزمان يكذبون بقدر الله عز وجل. يعني قوله تعالى: * (ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر) *".-" نزلت في أناس من أمتي في آخر الزمان يكذبون بقدر الله عز وجل. يعني قوله تعالى: * (ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر) *".
ابن زرارہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت میری امت کے آخری زمانے کے تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی «ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر» دوزخ کے آگے لگنے کے مزے چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
-" ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا: عاق ومنان ومكذب بالقدر".-" ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا: عاق ومنان ومكذب بالقدر".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
- (إن اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، وإن اهل النار ييسرون لعمل اهل النار).- (إنّ أهل الجنّة ييسرون لعمل أهل الجنة، وإنّ أهل النار ييسرون لعمل أهل النار).
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ملے، ہم نے ان کے سامنے تقدیر اور اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تذکرہ کیا ...... مزینہ یا جہنیہ قبیلہ کے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز میں عمل کر رہے ہیں؟ آیا اس (تقدیر) کے مطابق فیصلہ کیا جا چکا ہے یا ازسرِنو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (تقدیر) کے مطابق جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔“ اس نے یا کسی اور آدمی نے کہا: ”تو پھر عمل کی کیا حقیقت رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے جنتیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لیے جہنمیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“