- (يجيء الرجل يوم القيامة من الحسنات ما يظن انه ينجو بها، فلا يزال يقوم رجل قد ظلمه مظلمة، فيؤخذ من حسناته؛ فيعطى المظلوم حتى لا تبقى له حسنة، ثم يجيء من قد ظلمه؛ ولم يبق من حسناته شيء، فيؤخذ من سيئات المظلوم فتوضع على سيئاته).- (يجيء الرجل يوم القيامة من الحسنات ما يظن أنه ينجو بها، فلا يزال يقوم رجل قد ظلمه مظلمة، فيؤخذ من حسناته؛ فيعطى المظلوم حتى لا تبقى له حسنة، ثم يجيء من قد ظلمه؛ ولم يبق من حسناته شيء، فيؤخذ من سيئات المظلوم فتوضع على سيئاته).
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت ایسا آدمی آئے گا جسے یہ امید ہو گی کہ وہ اپنی نیکیوں کے بل بوتے پر نجات پا جائے گا۔ اس نے جن پر ظلم کیا ہو گا وہ آ کر اس کی نیکیاں لیتے رہیں گے، حتیٰ کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن پھر ایک مظلوم آ جائے گا، اب اس کی اپنی حسنات تو ختم ہو چکی ہیں، لہذا مظلوم کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔“
-" يطلع الله تبارك وتعالى إلى خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك او مشاحن".-" يطلع الله تبارك وتعالى إلى خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف جھانکتے ہیں اور تمام مخلوقات کو بخش دیتے ہیں، ماسوائے شرک کرنے والے اور بغض رکھنے والے کے۔“ یہ حدیث سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابوثعلبہ خشنی، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا ابوموسی اشعری، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عوف بن مالک اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
-" يعذب ناس من اهل التوحيد في النار، حتى يكونوا فيها حمما، ثم تدركهم الرحمة، فيخرجون ويطرحون على ابواب الجنة، قال: فيرش عليهم اهل الجنة الماء، فينبتون كما ينبت الغثاء في حمالة السيل، ثم يدخلون الجنة".-" يعذب ناس من أهل التوحيد في النار، حتى يكونوا فيها حمما، ثم تدركهم الرحمة، فيخرجون ويطرحون على أبواب الجنة، قال: فيرش عليهم أهل الجنة الماء، فينبتون كما ينبت الغثاء في حمالة السيل، ثم يدخلون الجنة".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اہل توحید کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، حتی کہ وہ جل جل کر کوئلہ ہو جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت ان کو پا لے گی، انہیں نکالا جائے گا، جنت کے دروازوں پر لایا جائے گا، جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے اور ان کا جسم یوں اگے گا جیسے سیلاب کے بہاؤ سے جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ (میں بیج سے پودا) اگتا ہے۔“
- ابشروا وبشروا من وراءكم انه من شهد ان لا إله إلا الله صادقا دخل الجنة".- أبشروا وبشروا من وراءكم أنه من شهد أن لا إله إلا الله صادقا دخل الجنة".
ابوبکر بن ابوموسی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی یہ خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا.“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر ایسی خوشخبریاں لوگوں کو سنائی جائیں تو) وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
-" اخرج فناد في الناس: من شهد ان لا إله إلا الله وجبت له الجنة".-" اخرج فناد في الناس: من شهد أن لا إله إلا الله وجبت له الجنة".
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لئے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، تو اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کئے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی بات بتائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا:۔“
- (اشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، لا ياتي بهما عبد محق إلا وقاه الله حر النار).- (أشهد أن لا إله إلا الله، وأنِّي رسول الله، لا يأتي بهما عبدٌ مُحِقٌ إلاّ وقاه الله حرّ النّار).
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبخ کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔ کوئی ایک مدّ لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا اور تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت۔“ لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لئے، حتٰی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، اور اناج ویسے کا ویسے پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائیں گے۔“
- (إن اول شيء خلقه الله عز وجل: القلم، فاخذه بيمينه- وكلتا يديه يمين- قال: فكتب الدنيا وما يكون فيها من عمل معمول: بر او فجور، رطب او يابس، فاحصاه عنده في الذكر، ثم قال: اقراوا إن شئتم: (هذا كتابنا ينطق عليكم بالحق إنا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون) ؛ فهل تكون النسخة إلا من امر قد فرغ منه).- (إنَّ أول شيءٍ خَلَقَهَ الله عزَّ وجلَّ: القلمُ، فأخذَهُ بيمينه- وكلتا يديهِ يمين- قال: فكتبَ الدنيا وما يكونُ فيها من عملٍ معمولٍ: بِرَّ أو فجورٍ، رطب أو يابس، فأحصاهُ عندَه في الذِّكر، ثم قال: اقرَأُوا إن شئتم: (هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون) ؛ فهل تكون النسخةُ إلا مِنْ أمرٍ قد فُرغَ منه).
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، پھر اس نے دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی اور و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا۔ پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں۔“(سورہ جاثیہ: ۲۹) لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
-" إن اول شيء خلقه الله تعالى القلم وامره ان يكتب كل شيء يكون".-" إن أول شيء خلقه الله تعالى القلم وأمره أن يكتب كل شيء يكون".
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک! اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے (مستقبل میں) ہونے والی ہر چیز کو لکھنے کا حکم دیا۔“
-" إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن علي وقال: اربع من اطيب الكلام وهن من القرآن لا يضرك بايهن بدات: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر، ثم قال: لا تسمين غلامك افلح، ولا نجيحا، ولا رباحا، ولا يسارا (فإنك تقول: اثم هو؟ فلا يكون، فيقول: لا)".-" إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن علي وقال: أربع من أطيب الكلام وهن من القرآن لا يضرك بأيهن بدأت: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر، ثم قال: لا تسمين غلامك أفلح، ولا نجيحا، ولا رباحا، ولا يسارا (فإنك تقول: أثم هو؟ فلا يكون، فيقول: لا)".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں تم لوگوں کو کوئی بات بیان کروں تو (اس کے بارے میں) مجھ سے مزید سوال نہ کیا کرو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”انتہائی اچھے (اور عمدہ) کلام والے چار کلمات ہیں، ان کا ذکر قرآن مجید میں ہے، (ان میں سے) جو کلمہ شروع میں ذکر کر دیا جائے اس سے تجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ (وہ کلمات یہ ہیں:) «سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله والله اكبر»“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بچے کا نام افلح، نجیح، رباح اور یسار نہ رکھنا، کیونکہ تو پوچھتا ہے کہ کیا وہ یہاں ہے؟ لیکن وہ وہاں نہیں ہوتا، اس لیے (جواب دینے والا) کہتا ہے: نہیں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ان اعمال کو سرانجام دینے کا حکم دیتے تھے، جن کی وہ طاقت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی طرح نہیں ہیں، (آپ کی صورت حال تو یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں، (جبکہ ہم گنہگار ہیں تو اس لیے ہمیں زیادہ عمل کرنے چاہیں)۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس مطالبے پر) ناراض ہو جاتے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی کا پتہ چلتا تھا، پھر فرماتے: ”بے شک میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کو جاننے والا ہوں۔“