-" كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة، إلا سببي ونسبي".-" كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة، إلا سببي ونسبي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز ہر رشتہ (اور تعلق و قرابت) منقطع ہو جائے گا سوائے میرے ازدواجی اور نسبی رشتے کے“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عمر بن خطاب سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمم سے مروی ہے۔
-" كما لا يجتنى من الشوك العنب، كذلك لا ينزل الابرار منازل الفجار، فاسلكوا اي طريق شئتم، فاي طريق سلكتم وردتم على اهله".-" كما لا يجتنى من الشوك العنب، كذلك لا ينزل الأبرار منازل الفجار، فاسلكوا أي طريق شئتم، فأي طريق سلكتم وردتم على أهله".
سیدنا یزید بن مرثد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے کانٹوں سے انگور نہیں چنے جاتے، اس طرح بدکاروں کی منازل پر نیکوروں کو نہیں اتارا جاتا۔ جس راستہ پر چلنا چاہتے ہو چلو (لیکن اتنا یاد رکھو کہ) جون سا راستہ اختیار کرو گے اسی پر چلنے والوں کے پاس پہنچ جاؤ گے۔“
-" لقلب ابن آدم اشد انقلابا من القدر إذا اجتمعت غليانا".-" لقلب ابن آدم أشد انقلابا من القدر إذا اجتمعت غليانا".
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت تک کسی آدمی کو صاحب خیر یا شر نہیں کہتا، جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ کس عمل پر اس کا خاتمہ ہو رہا ہے، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے۔ کہا گیا: تم نے کون سی حدیث سنی ہے؟ میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ الٹ پلٹ ہونے والا ہے جو ابل رہی ہو۔“
-" لا تعجبوا بعمل احد حتى تنظروا بما يختم له، فإن العامل يعمل زمانا من دهره، او برهة من دهره بعمل صالح لو مات (عليه) دخل الجنة، ثم يتحول فيعمل عملا سيئا، وإن العبد ليعمل زمانا من دهره بعمل سيىء لو مات (عليه) دخل النار، ثم يتحول فيعمل عملا صالحا، وإذا اراد الله بعبد خير استعمله قبل موته فوفقه لعمل صالح، (ثم يقبضه عليه)".-" لا تعجبوا بعمل أحد حتى تنظروا بما يختم له، فإن العامل يعمل زمانا من دهره، أو برهة من دهره بعمل صالح لو مات (عليه) دخل الجنة، ثم يتحول فيعمل عملا سيئا، وإن العبد ليعمل زمانا من دهره بعمل سيىء لو مات (عليه) دخل النار، ثم يتحول فيعمل عملا صالحا، وإذا أراد الله بعبد خير استعمله قبل موته فوفقه لعمل صالح، (ثم يقبضه عليه)".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے عمل کو دیکھ کر اس کے (نیک و بد) ہونے کا فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو، دیکھو کہ کس عمل پر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے، کیونکہ (یہ حقیقت ہے کہ) عامل کچھ زمانہ نیک اعمال کرتا رہتا ہے، اگر انہی اعمال پر اس کو موت آ جائے تو وہ جنتی ہو گا، لیکن اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ برے عمل کرنا شروع کر دیتا ہے (اور ان پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے)۔ اسی طرح ایک انسان کچھ عرصہ تک برے عمل کرتا رہتا ہے، اگر انہی پر اس کو موت آجائے تو وہ آگ میں داخل ہو گا، لیکن ہوتا یوں ہے کہ اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ نیک عمل شروع کر دیتا ہے (اور ان پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے)۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے موت سے قبل نیک اعمال کی توفیق دے دیتے ہیں، پھر اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔“
-" لم آتكم إلا بخير، اتيتكم لتعبدوا الله وحده لا شريك له وتدعوا عبادة اللات والعزى، وتصلوا في الليل والنهار خمس صلوات، وتصوموا في السنة شهرا، وتحجوا هذا البيت، وتاخذوا من مال اغنيائكم، فتردوها على فقرائكم. لقد علم الله خيرا، وإن من العلم ما لا يعلمه إلا الله، خمس لا يعلمهن إلا الله: * (إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت) *".-" لم آتكم إلا بخير، أتيتكم لتعبدوا الله وحده لا شريك له وتدعوا عبادة اللات والعزى، وتصلوا في الليل والنهار خمس صلوات، وتصوموا في السنة شهرا، وتحجوا هذا البيت، وتأخذوا من مال أغنيائكم، فتردوها على فقرائكم. لقد علم الله خيرا، وإن من العلم ما لا يعلمه إلا الله، خمس لا يعلمهن إلا الله: * (إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت) *".
بنو عامر قبیلے کا ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں اندر آ جاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی سے فرمایا: اس آدمی نے اچھے انداز میں اجازت طلب نہیں کی، لہٰذا جاؤ اور اسے کہو کہ یوں کہا کرو: «السلام عليكم» میں اندر آ سکتا ہوں؟ اس آدمی نے خود ہی یہ بات سن لی اور لونڈی کے پہنچنے سے پہلے کہا: «السلام عليكم»، میں اندر آ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «و عليك»، آ جاؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور پوچھا: آپ کون سی چیز لے کر آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس خیر لے کر آیا ہوں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس حال میں کہ وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزیٰ (جیسے بتوں) کی عبادت ترک کر دو اور دن رات میں پانچ نمازیں پڑھو اور سال میں ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اور غنی لوگوں سے (زکوٰۃ کا) مال لے کر اسے فقرا میں تقسیم کر دو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی پر مشتمل باتیں سکھائی ہیں اور وہ بھی علم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے: ب ”یشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمیں میں وہ مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“(سورہ لقمان: ۳۴)
- (لما كان ليلة اسري بي، واصبحت بمكة فظعت بامري، وعرفت ان الناس مكذبي. فقعد معتزلا حزينا. قال: فمر عدو الله ابو جهل، فجاء حتى جلس إليه، فقال له- كالمستهزئ-: هل كان من شيء؟ فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: نعم. قال: ما هو؟ قال: إنه اسري بي الليلة. قال: إلى اين؟ قال: إلى بيت المقدس. قال: ثم اصبحت بين ظهرانينا؟ قال: نعم. فلم ير انه يكذبه مخافة ان يجحده الحديث إذا دعا قومه إليه، قال: ارايت إن دعوت قومك تحدثهم ما حدثتني؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: نعم فقال: هيا معشر بني كعب بن لؤي! فانتفضت إليه المجالس؛ وجاءوا حتى جلسوا إليهما، قال: حدث قومك بما حدثتني. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إني اسري بي الليلة. قالوا: إلى اين؟ قال: إلى بيت المقدس. قالوا: ثم اصبحت بين ظهرانينا؟ قال: نعم. قال: فمن بين مصفق، ومن بين واضع يده على راسه متعجبا للكذب؛ زعم! قالوا: وهل تستطيع ان تنعت لنا المسجد- وفي القوم من قد سافر إلى ذلك البلد وراى المسجد-؟! فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: فذهبت انعت، فما زلت انعت حتى التبس علي بعض النعت. قال: فجيء بالمسجد وانا انظر حتى وضع دون دار عقال- اوعقيل -، فنعته وانا انظر إليه- قال: وكان مع هذا نعت لم احفظه-قال: فقال القوم: اما النعت؛ فوالله! لقد اصاب).- (لَمَّا كان ليلة أُسْرِي بِي، وأصبحتُ بمكةَ فَظِعْتُ بِأمْري، وعَرَفتُ أنَّ الناسَ مُكَذِّبِّي. فَقَعَدَ معتزلاً حزيناً. قال: فَمَرَّ عدوُّ اللهِ أبو جَهْلٍ، فجاء حتى جلس إليه، فقالَ له- كالمستهزئِ-: هل كانَ من شيءٍ؟ فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: نعم. قال: ما هو؟ قال: إنه أُسْريَ بي الليلةَ. قال: إلى أين؟ قال: إلى بيت المقدس. قال: ثم أصبحتَ بين ظَهْرانَيْنَا؟ قال: نعم. فلم يَرَ أنه يُكَذِّبُهًُ مخافة أن يجْحَدَهُ الحديثَ إذا دعا قومَهُ إليه، قال: أرأيت إن دعوتُ قومَكَ تُحَدِّثُهُم ما حَدَّثْتَنِي؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: نعم فقال: هَيَّا مَعشَرَ بني كعبِ بن لُؤيٍّ! فانتفضت إليه المجالس؛ وجاءوا حتى جَلَسُوا إليهما، قال: حَدِّثْ قومَكَ بما حَدِّثْتَنِي. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إني أُسْرِيَ بي الليلة. قالوا: إلى أين؟ قال: إلى بيتِ المقدس. قالوا: ثم أصبحتَ بين ظَهْرَانَيْنا؟ قال: نعم. قال: فَمِنْ بين مُصَفِّقٍ، ومن بين واضعٍ يَدَهُ على رأسِهِ متعجباً للكذبِ؛ زعم! قالوا: وهل تستطيعُ أن تَنْعَتَ لنا المسجد- وفي القومِ مَنْ قَد سافَرَ إلى ذلك البلد ورأى المسجد-؟! فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: فذهبتُ أنعتُ، فما زلتُ أَنْعَتُ حتى الْتَبَسَ عليَّ بعضُ النَّعْتِ. قال: فَجِيءَ بالمسجد وأنا أنظُرُ حتى وُضِعَ دُونَ دار عقالٍ- أوعقيلٍ -، فنعتُّه وأنا أنظرُ إليه- قال: وكان مع هذا نعتُ لم أحفظه-قال: فقال القوم: أما النعت؛ فوالله! لقد أصاب).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مجھے اسرا کرایا گیا اور میں صبح کو مکہ میں پہنچ گیا، میں گھبرا گیا اور مجھے علم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے، سو آپ خلوت میں غمزدہ ہو کر بیٹھ گئے۔“ اللہ کا دشمن ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، وہ آیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا: کیا کچھ ہوا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ اس نے کہا: کیا ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھے اسرا کرایا گیا ہے۔“ اس نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس تک۔“ اس نے کہا: پھر صبح کو آپ ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ ابوجاہل نے سوچا کہ ابھی اس کو نہیں جھٹلاتا، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی قوم کو بلاؤں اور یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بات بیان کرنے سے انکار کر دے۔ اس لئے ابوجہل نے کہا: اگر میں تیری قوم کو بلاؤں تو تو ان کے سامنے یہی گفتگو بیان کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا: بنی کعب بنی لؤی کی جماعت ادھر آؤ۔ ساری کی ساری مجلسیں اس کی طرف ٹوٹ پڑیں، وہ سب کے سب آ گئے اور ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: (اے محمد!) جو بات مجھے بیان کی تھی، ان کو بھی بیان کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھے اسرا کرایا گیا۔“ انہوں نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس تک۔“ انہوں نے کہا: پھر صبح کو یہاں بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“(یہ سن کر) کوئی تالی بجانے لگ گیا اور کوئی (بزعم خود) اس جھوٹ پر متاثر ہو کر اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مسجد اقصی کی علامت بیان کر سکتے ہو؟ ان میں سے بعض لوگوں نے اس علاقے کا سفر بھی کیا ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس کی علامتیں بیان کرنی شروع کر دیں، لیکن بعض نشانیوں کے بارے میں اشتباہ و التباس سا ہونے لگا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ (کی تمثیل کو) کو لایا گیا اور عقال یا عقیل کے گھر سے بھی قریب رکھ دیا گیا، میں نے اسے دیکھ کر نشانیاں بیان کر دیں، اس کے باوجود مجھے کچھ نشانیاں یاد نہ رہیں۔ لوگوں نے کہا: رہا مسئلہ علامات کا، تو وہ تو اللہ کی قسم! آپ نے درست بیان کر دی ہیں۔
- (ما من احد يسمع بي من هذه الامة، ولا يهودي، ولا نصراني، فلا يؤمن بي، إلا دخل النار).- (ما من أحد يسمع بي من هذه الأمة، ولا يهودي، ولا نصراني، فلا يؤمن بي، إلا دخل النار).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اس امت کا جو فرد، وہ یہودی ہو یا نصرانی (یا کوئی اور) میرے (ظہور کے) بارے میں سن کر مجھ پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“ یہ حدیث سیدنا سعید بن جبیر سے روایت کی گئی ہے اور ان پر تین صورتوں میں سند کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
-" والذي نفسي بيده لا يسمع بي رجل من هذه الامة، ولا يهودي ولا نصراني ثم لم يؤمن بي إلا كان من اهل النار".-" والذي نفسي بيده لا يسمع بي رجل من هذه الأمة، ولا يهودي ولا نصراني ثم لم يؤمن بي إلا كان من أهل النار".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو فرد، وہ یہودی ہو یا نصرانی، میرے بارے میں سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے، وہ جہنمی ہو گا۔“
-" لو آمن بي عشرة من اليهود ما بقي على ظهرها يهودي إلا اسلم".-" لو آمن بي عشرة من اليهود ما بقي على ظهرها يهودي إلا أسلم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دس یہودی مجھ پر ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر بسنے والا ہر یہودی اسلام قبول کر لے گا۔“
-" لو تركها لدارت او طحنت إلى يوم القيامة".-" لو تركها لدارت أو طحنت إلى يوم القيامة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر جنگل کی طرف نکل گیا، اس کی بیوی نے کہا: اے اللہ! ہم کو رزق دے کہ ہم آٹا گوندھ کر روٹیاں پکا سکیں۔ جب وہ آدمی واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ٹب آٹے سے بھرا ہوا ہے، تنور میں (جانور کی) پسلیوں کا بھنا ہوا گوشت موجود ہے اور چکی غلہ پیس رہی ہے۔ اس نے کہا: یہ رزق کہاں سے آ گیا؟ اس کی بیوی نے کہا: یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق ہے، جب اس نے ارد گرد سے چکی صاف کی (تو وہ رک گئی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اسے اسی حالت پر چھوڑے رکھتا تو وہ روز قیامت تک آٹا پیستی رہتی۔“