-" يعمد الشيطان إلى احدكم فيتهول له، ثم يغدو يخبر الناس!".-" يعمد الشيطان إلى أحدكم فيتهول له، ثم يغدو يخبر الناس!".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی آیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا میرا سر قلم کر دیا گیا اور پھر وہ لڑھک گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر خوفناک شکلیں پیش کرتا ہے اور وہ صبح کو لوگوں کو بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔“
-" هي الرؤيا الصالحة يراها العبد او ترى له. يعني (البشرى في الحياة الدنيا)".-" هي الرؤيا الصالحة يراها العبد أو ترى له. يعني (البشرى في الحياة الدنيا)".
ابوصالح کہتے ہیں: کہ میں سن رہا تھا، سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انھوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا، مجھ سے کسی نے دریافت نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا: ”اس کے بارے میں تجھ سے پہلے مجھ سے کسی نے سوال نہیں کیا، اس سے مراد نیک خواب ہے، جو بندہ دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔“
- (رايت ربي في احسن صورة، فقال: فيم يختصم الملا الاعلى، فقلت: لا ادري، فوضع يده بين كتفي، حتى وجدت برد انامله، ثم قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: في الكفارات والدرجات، قال: وما الكفارات؟ قلت: إسباغ الوضوء في السبرات، ونقل الاقدام إلى الجماعات، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، قال: فما- (رأيتُ ربِّي في أحسنِ صورةٍ، فقال: فيمَ يختصمُ الملأُ الأعلى، فقلت: لا أدري، فوضع يده بين كتفيَّ، حتَّى وجدتُ بردَ أنامِله، ثمَّ قالَ: فيم يختصمُ الملأ الأعلى؟ قلتُ: في الكفَّارات والدرجات، قال: وما الكفَّارات؟ قلت: إسباغُ الوضوءِ في السّبَرات، ونقلُ الأقدام إلى الجماعاتِ، وانتظارُ الصلاةِ بعدَ الصلاة، قال: فما
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب کو بہت حسین صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا: اشراف فرشتوں کی جماعت کس چیز میں جھگڑا کرتی ہے؟ میں نے کہا: میں تو نہیں جانتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا مجھے انگلیوں کی ٹھنڈک بھی محسوس ہوئی۔ پھر پوچھا: سردار فرشتوں کی جماعت کس چیز میں بحث و مباحثہ کرتی ہے؟ میں نے کہا: کفارات اور درجات میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: وضو کرنا، نماز باجماعت کے لیے (مساجد کی طرف) چل کر جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لیے انتظار کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: درجات سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا: کھانا کھلانا، سلام عام کرنا اور جب لوگ رات کو سو رہے ہوں تو نماز پڑھنا پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: کہو۔ میں نے کہا: کیا کہوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: کہو: «اللهمّ! إنِّي أسألك عَمَلاً بالحسناتِ، وتركاً للمنكراتِ، وإذا أردتَ في قومٍ فتنةً وأنا فيهم؛ فاقبضني إليكَ غيرَ مفتونٍ» اے اللہ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو ترک کر دینے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے اور میں وہاں موجود ہوں تو مجھے فتنے سے بچا کر موت دے دینا۔“
-" الرجل على دين خليله، فلينظر احدكم من يخالل".-" الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔“
-" لا يزال امر هذه الامة مواتيا او مقاربا ما لم يتكلموا في الولدان والقدر".-" لا يزال أمر هذه الأمة مواتيا أو مقاربا ما لم يتكلموا في الولدان والقدر".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہم نوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا، جب تک بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
-" سالت ربي اللاهين، فاعطانيهم. قلت: وما اللاهون؟ قال: ذراري البشر".-" سألت ربي اللاهين، فأعطانيهم. قلت: وما اللاهون؟ قال: ذراري البشر".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے «لاهين» کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عطا کر دئیے۔“ میں نے کہا: کہ «لاهين» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسانی بچے۔“
-" ما بال قوم جاوزهم القتل اليوم حتى قتلوا الذرية! فقال رجل: يا رسول الله: إنما هم اولاد المشركين! فقال: الا إن خياركم ابناء المشركين، ثم قال: الا لا تقتلوا ذرية، الا لا تقتلوا ذرية، قال: كل نسمة تولد على الفطرة حتى يهب عنها لسانها فابواها يهودانها وينصرانها".-" ما بال قوم جاوزهم القتل اليوم حتى قتلوا الذرية! فقال رجل: يا رسول الله: إنما هم أولاد المشركين! فقال: ألا إن خياركم أبناء المشركين، ثم قال: ألا لا تقتلوا ذرية، ألا لا تقتلوا ذرية، قال: كل نسمة تولد على الفطرة حتى يهب عنها لسانها فأبواها يهودانها وينصرانها".
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ جہاد کیا، ایک دن میں نے (مخالف لشکر کے) بڑے بڑے لوگوں کو اچانک قتل کیا اور مجاہدین نے ان کے بچوں کو بھی قتل کر دیا۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ قتل اپنی حد سے تجاوز کر گیا ہے اور بچوں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مشرکوں کے بچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں مختار و منتخب لوگ بھی مشرکوں کے بچے ہیں۔“ پھر فرمایا: ”خبردار! بچوں کو قتل نہیں کرنا۔ خبردار! بچوں کو قتل نہیں کرنا، ہر انسان (اسلام کی) فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی زبان وضاحت کر دے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔“
-" الكبائر: الشرك بالله والإياس من روح الله والقنوط من رحمة الله".-" الكبائر: الشرك بالله والإياس من روح الله والقنوط من رحمة الله".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی شفقت سے ناامید ہونا اور اس کی رحمت سے مایوس ہونا۔“
-" ضحك ربنا عز وجل من قنوط عباده، وقرب غيره، فقال ابو رزين: اويضحك الرب عز وجل؟ قال: نعم. فقال: لن نعدم من رب يضحك خيرا".-" ضحك ربنا عز وجل من قنوط عباده، وقرب غيره، فقال أبو رزين: أويضحك الرب عز وجل؟ قال: نعم. فقال: لن نعدم من رب يضحك خيرا".
سیدنا ابورزین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب بندوں کی ناامیدی اور اپنی طرف سے حالات کے تبدیل ہونے کے قریب ہونے پر ہنستا ہے۔“ سیدنا ابورزین نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ بھی ہنستے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ پھر فرمایا: ”جو رب ہنستا ہو، ہم اس کے ہاں خیر و بھلائی کو مفقود نہیں پا سکتے۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اور اللہ تعالیٰ کو بارش والے دن کا علم ہوتا ہے، وہ تم پر جھانکتا ہے، اس حال میں کہ تم پریشان حال، (ناامید) اور ڈرنے والے ہوتے ہو، پس وہ ہنسنے لگتا ہے، تحقیق وہ جانتا ہے تمہارے (تنگ) حالات کا (خوشحالی میں) تبدیل ہونا قریب ہے۔“
- (لما جاء نعي النجاشي قال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: صلوا عليه. قالوا: يا رسول الله! نصلي على عبد حبشي [ليس بمسلم]؟ فانزل الله عز وجل: ((وإن من اهل الكتاب لمن يؤمن بالله وما انزل إليكم وما انزل إليهم خاشعين لله لايشترون بآيات الله ثمنا قليلا))- (لمَّا جاءَ نَعْيُ النَّجَاشِيُّ قال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: صَلُّوا عليه. قالوا: يا رسول الله! نُصَلِّي على عَبْدٍ حَبَشِيٍّ [ليس بمسلم]؟ فأنزل الله عز وجل: ((وإن من أهل الكتاب لمن يؤمن بالله وما أنزل إليكم وما أنزل إليهم خاشعين لله لايشترون بآيات الله ثمناً قليلاً))
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نجاشی کی فوتگی کی خبر موصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! حبشی آدمی، جو مسلمان نہیں تھا، کی نماز جنازہ کیسے پڑھیں؟ اللہ تعالی نے جواباً یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا ہے اور ان کی جانب جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں ہیں“۔ (سورہ ال عمران: ۱۹۹)