-" كل مسلم على مسلم محرم، اخوان نصيران، لا يقبل الله عز وجل من مشرك بعدما اسلم عملا او يفارق المشركين إلى المسلمين".-" كل مسلم على مسلم محرم، أخوان نصيران، لا يقبل الله عز وجل من مشرك بعدما أسلم عملا أو يفارق المشركين إلى المسلمين".
سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد کے برابر قسمیں اٹھائی تھیں کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین اختیار کروں گا، لیکن اب میں آ گیا ہوں۔ میں ایک بےسمجھ سا انسان ہوں اور مجھے اللہ اور رسول کی سکھائی ہوئی صرف چند معلومات کا علم ہے، اب میں اللہ تعالی کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کے رب نے آپ کو کون سی چیز کے ساتھ مبعوث کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے ساتھ۔“ میں نے کہا: اسلام کی علامتیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا یہ کہنا کہ میں نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے لئے مطیع کر دیا اور اس کے حق میں دستبردار ہو گیا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے حرمت والا ہے، (اس مذہب میں) دو بھائی ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی مشرک کے مسلمان ہونے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف نہ آ جائے۔“
-" إن منكم رجالا نكلهم إلى إيمانهم، منهم فرات بن حيان".-" إن منكم رجالا نكلهم إلى إيمانهم، منهم فرات بن حيان".
سیدنا فرات بن حیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ابوسفیان کا جاسوس اور ایک انصار کا حلیف تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کرنے کا حکم دیا۔ میں انصار کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور کہا: میں مسلمان ہوں۔ ایک انصار نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو کہہ رہا ہے وہ مسلمان ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تم میں سے بعض لوگوں کو ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، فرات بن حیان بھی ان میں سے ہیں۔“
- (إن هذا اخترط سيفي وانا نائم، فاستيقظت وهو في يده صلتا، فقال لي: من يمنعك مني؟ قلت: الله، فها هو ذا جالس).- (إنّ هذا اخترط سيفي وأنا نائمٌ، فاستيقظت وهو في يده صلتاً، فقال لي: من يمنعك مني؟ قلت: الله، فها هو ذا جالسٌ).
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوے میں شریک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ چلتے چلتے ایسی وادی میں قیلولے کا وقت ہو گیا جس میں خار دار درخت بہت زیادہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور لوگ درخت کا سایہ حاصل کرنے کے لئے بکھر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ببول کے درخت کے نیچے آ گئے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی۔ ہم سو گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بدو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا: ”میں سویا ہوا تھا، اس بدو نے میری تلوار میان سے نکالی، جب بیدار ہوا تو میری تلوار اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے کہا: کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ ہے۔ یہ دیکھو! اب یہ بیٹھا ہوا ہے (اور میرا کچھ نہ بگاڑ سکا)۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی انتقام نہ لیا۔
-" إنكم إن شهدتم ان لا إله إلا الله واقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وفارقتم المشركين واعطيتم من الغنائم الخمس وسهم النبي صلى الله عليه وسلم، والصفي - وربما قال: وصفيه - فانتم آمنون بامان الله وامان رسوله".-" إنكم إن شهدتم أن لا إله إلا الله وأقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وفارقتم المشركين وأعطيتم من الغنائم الخمس وسهم النبي صلى الله عليه وسلم، والصفي - وربما قال: وصفيه - فأنتم آمنون بأمان الله وأمان رسوله".
یزید بن عبداللہ بن خیر کہتے ہیں: ہم مربد میں بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے پاس ایک پراگندہ بالوں والا ایک بدو آیا، اس کے پاس کھال کے یا چمڑے کے تھیلے کا ایک ٹکڑا تھا۔ ہم نے کہا: یہ آدمی تو شہری لگتا ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں، یہ خط ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے لکھا تھا۔ لوگوں نے کہا: ہمیں دیجئے۔ میں نے وہ پکڑ لیا اور پڑھا، اس میں لکھا ہوا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔ یہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنو زہیر بن اقیش کی طرف ہے۔ بنو زہیر، عکل کا قبیلہ تھا۔ اگر تم گواہی دے دو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، مشرکوں سے الگ ہو جاؤ اور غنیمتوں میں سے پانچواں حصہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتخب حصہ دے دو تو تم اللہ تعالی کی امان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں آ جاؤ گے۔“
-" كل مسلم على مسلم محرم، اخوان نصيران، لا يقبل الله عز وجل من مشرك بعدما اسلم عملا او يفارق المشركين إلى المسلمين".-" كل مسلم على مسلم محرم، أخوان نصيران، لا يقبل الله عز وجل من مشرك بعدما أسلم عملا أو يفارق المشركين إلى المسلمين".
سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد کے برابر قسمیں اٹھائی تھیں کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین اختیار کروں گا، لیکن اب میں آ گیا ہوں۔ میں ایک بےسمجھ سا انسان ہوں اور مجھے اللہ اور رسول کی سکھائی ہوئی صرف چند معلومات کا علم ہے، اب میں اللہ تعالی کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کے رب نے آپ کو کون سی چیز کے ساتھ مبعوث کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے ساتھ۔“ میں نے کہا: اسلام کی علامتیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا یہ کہنا کہ میں نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے لئے مطیع کر دیا اور اس کے حق میں دستبردار ہو گیا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے حرمت والا ہے، (اس مذہب میں) دو بھائی ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی مشرک کے مسلمان ہونے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف نہ آ جائے۔“
-" إنه ليس شيء يقربكم إلى الجنة إلا قد امرتكم به وليس شيء يقربكم إلى النار إلا قد نهيتكم عنه، إن روح القدس نفث في روعي: إن نفسا لا تموت حتى تستكمل رزقها فاتقوا الله واجملوا في الطلب، ولا يحملنكم استبطاء الرزق ان تطلبوه بمعاصي الله، فإن الله لا يدرك ما عنده إلا بطاعته".-" إنه ليس شيء يقربكم إلى الجنة إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم إلى النار إلا قد نهيتكم عنه، إن روح القدس نفث في روعي: إن نفسا لا تموت حتى تستكمل رزقها فاتقوا الله وأجملوا في الطلب، ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله، فإن الله لا يدرك ما عنده إلا بطاعته".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہیں جنت کے قریب کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب کر سکتی ہے، اس سے منع کر دیا ہے۔ روح قدس (یعنی جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے: کوئی جان اپنے رزق کی تکمیل کے بغیر نہیں مرتی، پس تم اللہ تعالی سے ڈرو اور اعتدال کے ساتھ مانگا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو رزق کا مؤخر ہونا تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم اللہ تعالی کی نافرمانیاں کر کے رزق کی تلاش میں پڑ جاؤ (یاد رکھو!) جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“
-" إنه ليس شيء يقربكم إلى الجنة إلا قد امرتكم به وليس شيء يقربكم إلى النار إلا قد نهيتكم عنه، إن روح القدس نفث في روعي: إن نفسا لا تموت حتى تستكمل رزقها فاتقوا الله واجملوا في الطلب، ولا يحملنكم استبطاء الرزق ان تطلبوه بمعاصي الله، فإن الله لا يدرك ما عنده إلا بطاعته".-" إنه ليس شيء يقربكم إلى الجنة إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم إلى النار إلا قد نهيتكم عنه، إن روح القدس نفث في روعي: إن نفسا لا تموت حتى تستكمل رزقها فاتقوا الله وأجملوا في الطلب، ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله، فإن الله لا يدرك ما عنده إلا بطاعته".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہیں جنت کے قریب کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب کر سکتی ہے، اس سے منع کر دیا ہے۔ روح قدس (یعنی جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے: کوئی جان اپنے رزق کی تکمیل کے بغیر نہیں مرتی، پس تم اللہ تعالی سے ڈرو اور اعتدال کے ساتھ مانگا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو رزق کا مؤخر ہونا تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم اللہ تعالی کی نافرمانیاں کر کے رزق کی تلاش میں پڑ جاؤ (یاد رکھو!) جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“
-" لا تستبطئوا الرزق، فإنه لم يكن عبد ليموت حتى يبلغ آخر رزق هو له، فاجملوا في الطلب: اخذ الحلال وترك الحرام".-" لا تستبطئوا الرزق، فإنه لم يكن عبد ليموت حتى يبلغ آخر رزق هو له، فأجملوا في الطلب: أخذ الحلال وترك الحرام".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رزق کو مؤخر نہ سمجھو، کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اپنے (مقدر میں لکھے ہوئے) رزق کی تکمیل نہیں کر لیتا۔ اعتدال کے ساتھ طلب کرو یعنی حلال چیز استعمال کرو اور حرام کو ترک کر دو۔“
- (إني اجد نفس الرحمن من هنا- يشير إلى اليمن).- (إني أجد نفس الرحمن من هنا- يشير إلى اليمن).
سیدنا سلمہ بن نفیل سکوتی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا، حتی کے میرے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں کو چھو رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھوڑوں سے غفلت برتی جا رہی ہے، اسلحہ پھینک دیا گیا ہے اور لوگ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ جہاد ختم ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، قتال کا تو ابھی ابھی نفاذ ہوا ہے، میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم دائم رہے گی، لوگوں پر غالب رہے گی، بعض لوگوں کے دل منحرف ہوتے رہیں گے اور وہ ان سے قتال کر کے مال غنیمت حاصل کرتے رہیں گے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت یمن کی طرف تھی: ”میں ادھر سے رحمٰن کی خوشبو (یا رحمت) محسوس کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ یمن کی طرف اشارہ فرما رہے تھے۔ مجھے بذریعہ وحی بتلا دیا گیا ہے کہ میں ٹھہرنے والا نہیں، بلکہ فوت ہونے والا ہوں، تم لوگ گروہ در گروہ میرے پیچھے چلو گے اور (یاد رکھو کہ) گھوڑے کی پیشانی میں روز قیامت تک خیر و بھلائی معلق رہے گی اور گھوڑے والے ان پر سوار ہو کر سختیاں جھیلتے رہیں گے۔“
-" إني لم ابعث باليهودية ولا بالنصرانية، ولكني بعثت بالحنيفية السمحة، والذي نفسي بيده لغدوة او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، ولمقام احدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة".-" إني لم أبعث باليهودية ولا بالنصرانية، ولكني بعثت بالحنيفية السمحة، والذي نفسي بيده لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، ولمقام أحدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة".
سیدنا ابوامامہ کہتے ہیں: ہم ایک لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ایک آدمی کا ایک نشیبی جگہ کے پاس سے گزر ہوا، وہاں پانی کا چشمہ بھی تھا، اسے خیال آیا کہ وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں فروکش ہو جائے، یہ پانی اور اس کے اردگرد کی سبزہ زاریاں اسے کفایت کریں گی۔ پھر اس نے یہ فیصلہ کیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاوں گا اور یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھوں گا، اگر آپ نے اجازت دے دی تو ٹھیک، ورنہ نہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! میں فلاں نشیبی جگہ سے گزرا، وہاں کے پانی اور سبزے سے میری گزر بسر ہو سکتی ہے، مجھے خیال آیا میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں بسیرا کر لوں، (اب آپ کا کیا خیال ہے)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں آیا، مجھے نرمی اور سہولت آمیز شریعت دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ کے راستے میں صبح کا یا شام کا چلنا دنیا و مافہیا سے بہتر ہے اور دشمن کے سامنے صف میں کھڑے ہونا ساٹھ کی نماز سے افضل ہے۔“