- (ياخذ الله- عز وجل- سماواته وارضيه بيديه، فيقول: انا الله- ويقبض اصابعه ويبسطها- انا الملك، [وتمايل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن يمينه وعن شماله] حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه، حتى إني لاقول: اساقط هو برسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟).- (يأخذُ اللهُ- عزَ وجل- سماواتِه وأرَضيِه بيديهِ، فيقولُ: أنا اللهُ- ويقبضُ أصابعَه ويبسطُها- أنا الملِكُ، [وتمايلَ رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - عن يمينه وعن شماله] حتى نظرتُ إلى المنبرِ يتحركُ من أسفلِ شيءٍ منه، حتّى إني لأقولُ: أساقطٌ هو برسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -؟).
عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتار رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لے گا اور کہے گا: میں اللہ ہوں، پھر انگلیوں کو کھولے گا اور بند کرے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جھومنے لگ گئے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ منبر بھی ہچکولے کھانے لگ گیا اور مجھے یہ وہم ہونے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا ہی نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 126/8، وابن خزيمة فى ”التوحيد“: 49، والبيهقي فى ”الأسماء والصفات“: 339، وابن ماجه: 198، 4275»
- (يمين الله ملاى، لا يغيضها نفقة، سحاء الليل والنهار، ارايتم ما انفق مذ خلق السماء والارض؟ فإنه لم يغض ما في يمينه، قال: وعرشه على الماء، وبيده الاخرى القبض، يرفع ويخفض).- (يمين الله ملأى، لا يغيضُها نفقة، سحّاء الليل والنهار، أرأيتم ما أنفق مذ خلق السّماء والأرض؟ فإنه لم يغض ما في يمينه، قال: وعرشه على الماء، وبيده الأخرى القبضُ، يرفعُ ويخفض).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت خرچ کرتے رہنے سے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا تم اس کا اندازہ لگا سکتے ہو، جو کچھ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق (سے لے کر اب تک) خرچ کیا؟ اس سے بھی اس کے دائیں ہاتھ (میں موجود خزانوں میں) کوئی کمی نہ آ سکی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ (کسی کے حق میں) اٹھاتا ہے اور (کسی کے حق میں) جھکاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «وله عنه طريقان:» «الأولي:..... عن همام بن منبه: فأخرجه مسلم: 78/3، وأحمد: 313/2.
الأخرى:.... عن الأعرج عن أبي هريرة: فأخرجه البخاري: 4684، 7411، ومسلم 77/3، والترمذي: 3045، وابن ماجه في ”السنن“ 197، وأحمد: 242/2، 500»
-" قولوا: ما شاء الله ثم شئت، وقولوا: ورب الكعبة".-" قولوا: ما شاء الله ثم شئت، وقولوا: ورب الكعبة".
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
-" من حلف فليحلف برب الكعبة".-" من حلف فليحلف برب الكعبة".
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت»“ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الطحاوي في ”المشكل“ 91/1، وأحمد: 371/6 و 372، وابن سعد: 309/8، والحاكم: 297/4، والنسائي: 140/2»
-" إن طفيلا راى رؤيا فاخبر بها من اخبر منكم وإنكم كنتم تقولون كلمة كان يمنعني الحياء منكم ان انهاكم عنها، قال: لا تقولوا: ما شاء الله وما شاء محمد".-" إن طفيلا رأى رؤيا فأخبر بها من أخبر منكم وإنكم كنتم تقولون كلمة كان يمنعني الحياء منكم أن أنهاكم عنها، قال: لا تقولوا: ما شاء الله وما شاء محمد".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھائی سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: تم بہترین قوم ہو، کاش! تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ یہودیوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔ پھر میں عیسائی گروہ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، کاش! تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ انہوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد (علیہ السلام) چاہے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں کو یہ خواب سنایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور آپ کو بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ خواب کسی کو سنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتا بھی دیا ہے۔ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، بس حیا آڑے آتی رہی اور میں تمہیں منع نہ کر سکا۔ (اب کے بعد) ایسے نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔“
-" اجعلتني مع الله عدلا (وفي لفظ: ندا؟!)، لا، بل ما شاء الله وحده".-" أجعلتني مع الله عدلا (وفي لفظ: ندا؟!)، لا، بل ما شاء الله وحده".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے کوئی بحث و مباحثہ کیا اور کہا: جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور آپ چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا دیا ہے! ایسے نہیں (کہنا چاہئے)، بلکہ یوں کہا جائے کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري في ”الأدب المفرد“: 783، وابن ماجه: 2117، والطحاوى فى ”المشكل“: 90/1، والبيهقي: 217/3، وأحمد: 214/1 و 224 و 283 و 347، والطبراني في ”الكبير“: 1/186/3، وأبو نعيم في ”الحلية“: 99/4، والخطيب في ”التاريخ“: 105/8، وابن عساكر: 2/7/12»
-" إذا حلف احدكم فلا يقل: ما شاء الله وشئت، ولكن ليقل ما شاء الله ثم شئت".-" إذا حلف أحدكم فلا يقل: ما شاء الله وشئت، ولكن ليقل ما شاء الله ثم شئت".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ «ما شاء الله وشئت»(جو اللہ اور آپ چاہیں)، بلکہ اس طرح کہا کرے: «ما شاء الله ثم وشئت»”جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تم چاہو۔““
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه: 650/1، ورواه الامام احمد فى ”مسنده“»
-" لو تعلمون قدر رحمة الله عز وجل لاتكلتم وما عملتم من عمل ولو علمتم قدر غضبه ما نفعكم شيء".-" لو تعلمون قدر رحمة الله عز وجل لاتكلتم وما عملتم من عمل ولو علمتم قدر غضبه ما نفعكم شيء".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت) کا اندازہ ہو جائے تو تم توکل (کر کے بیٹھ جاؤ اور) کوئی عمل نہ کرو اور اگر تمہیں اس کے غضب کا اندازہ ہو جائے تو (تم یہ سمجھ لو کہ) تمہیں کوئی عمل نفع نہیں دے گا۔“
تخریج الحدیث: «رواه ابن أبى الدنيا فى ”حسن الظن“: 1/193/2، والبزار»
-" تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل".-" تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
تخریج الحدیث: «رواه الطبراني فى ”الأوسط“: 6456، والسلالكائي فى ”السنة“: 1/ 1/119 - 2، والبيهقي فى ”الشعب“: 75/1 - هند»
- (اشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، لا ياتي بهما عبد محق إلا وقاه الله حر النار).- (أشهد أن لا إله إلا الله، وأنِّي رسول الله، لا يأتي بهما عبدٌ مُحِقٌ إلاّ وقاه الله حرّ النّار).
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي في ”مسنده“: 199/1 - 230/200 - والسياق لـس، والبزار: 11/13/1»