وقول الله تعالى: إن خير من استاجرت القوي الامين سورة القصص آية 26، والخازن الامين، ومن لم يستعمل من اراده.وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الأَمِينُ سورة القصص آية 26، وَالْخَازِنُ الْأَمِينُ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَعْمِلْ مَنْ أَرَادَهُ.
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اچھا مزدور جس کو تو رکھے وہ ہے جو زور دار، امانت دار ہو، اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ یزید بن عبداللہ نے کہا کہ میرے دادا، ابوبردہ عامر نے مجھے خبر دی اور انہیں ان کے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، اس کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ (صدقہ ادا کر دے) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔
Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: The Prophet said, "The honest treasurer who gives willingly what he is ordered to give, is one of the two charitable persons, (the second being the owner).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 461
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن قرة بن خالد، قال: حدثني حميد بن هلال، حدثنا ابو بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين، فقلت: ما عملت، انهما يطلبان العمل، فقال:" لن، او لا نستعمل على عملنا من اراده".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ، فَقُلْتُ: مَا عَمِلْتُ، أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، فَقَالَ:" لَنْ، أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ (میرے قبیلہ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہشمند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ «لن» یا لفظ «لا» استعمال فرمایا۔
Narrated Abu Musa: I went to the Prophet with two men from Ash`ari tribe. I said (to the Prophet), "I do not know that they want employment." The Prophet said, "No, we do not appoint for our jobs anybody who demands it earnestly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 462
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد المكي، حدثنا عمرو بن يحي، عن جده، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم، فقال اصحابه: وانت؟ فقال: نعم، كنت ارعاها على قراريط لاهل مكة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ".
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah did not send any prophet but shepherded sheep." His companions asked him, "Did you do the same?" The Prophet replied, "Yes, I used to shepherd the sheep of the people of Mecca for some Qirats."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 463
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها،"واستاجر النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر رجلا من بني الديل، ثم من بني عبد بن عدي هاديا خريتا، الخريت الماهر بالهداية، قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل وهو على دين كفار قريش فامناه، فدفعا إليه راحلتيهما وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال، فاتاهما براحلتيهما صبيحة ليال ثلاث، فارتحلا وانطلق معهما عامر بن فهيرة والدليل الديلي، فاخذ بهم اسفل مكة وهو طريق الساحل".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،"وَاسْتَأْجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ، ثُمَّ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيًا خِرِّيتًا، الْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ، قَدْ غَمَسَ يَمِينَ حِلْفٍ فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَأَمِنَاهُ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَأَتَاهُمَا بِرَاحِلَتَيْهِمَا صَبِيحَةَ لَيَالٍ ثَلَاثٍ، فَارْتَحَلَا وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ الدِّيلِيُّ، فَأَخَذَ بِهِمْ أَسْفَلَ مَكَّةَ وَهُوَ طَرِيقُ السَّاحِلِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (ہجرت کرتے وقت) بنو دیل کے ایک مرد کو نوکر رکھا جو بنو عبد بن عدی کے خاندان سے تھا۔ اور اسے بطور ماہر راہبر مزدوری پر رکھا تھا (حدیث کے لفظ) «خريت» کے معنی راہبری میں ماہر کے ہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈبو کر عاص بن وائل کے خاندان سے عہد کیا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے دین پر تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر بھروسہ تھا۔ اسی لیے اپنی سواریاں انہوں نے اسے دے دیں اور غار ثور پر تین رات کے بعد اس سے ملنے کی تاکید کی تھی۔ وہ شخص تین راتوں کے گزرتے ہی صبح کو دونوں حضرات کی سواریاں لے کر وہاں حاضر ہو گیا۔ اس کے بعد یہ حضرات وہاں سے عامر بن فہیرہ اور اس دیلی راہبر کو ساتھ لے کر چلے۔ یہ شخص ساحل کے کنارے سے آپ کو لے کر چلا تھا۔
Narrated `Aisha: The Prophet and Abu Bakr employed a (pagan) man from the tribe of Bani Ad-Dail and the tribe of Bani 'Abu bin `Adi as a guide. He was an expert guide and he broke the oath contract which he had to abide by with the tribe of Al-`Asi bin Wail and he was on the religion of Quraish pagans. The Prophet and Abu Bakr had confidence in him and gave him their riding camels and told him to bring them to the Cave of Thaur after three days. So, he brought them their two riding camels after three days and both of them (The Prophet and Abu Bakr) set out accompanied by 'Amir bin Fuhaira and the Dili guide who guided them below Mecca along the road leading to the sea-shore.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 464
4. باب: کوئی شخص کسی مزدور کو اس شرط پر رکھے کہ کام تین دن یا ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد کرنا ہو گا تو جائز ہے اور جب وہ مقررہ وقت آ جائے تو دونوں اپنی شرط پر قائم رہیں گے۔
(4) Chapter. It is legal if somebody hires someone to work for him after three days, or after one month or after a year. When that period elapses they should carry out their contract.
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب: فاخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" واستاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر رجلا من بني الديل هاديا خريتا وهو على دين كفار قريش، فدفعا إليه راحلتيهما وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال براحلتيهما صبح ثلاث".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ هَادِيًا خِرِّيتًا وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلَاثٍ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آ جائے۔
Narrated Aisha: (the wife of the Prophet) Allah's Apostle and Abu Bakr hired a man from the tribe of Bani-Ad-Dil as an expert guide who was a pagan (follower of the religion of the pagans of Quraish). The Prophet and Abu Bakr gave him their two riding camels and took a promise from him to bring their riding camels in the morning of the third day to the Cave of Thaur.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 465
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إسماعيل بن علية، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، عن صفوان بن يعلى، عن يعلى بن امية رضي الله عنه، قال:" غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم جيش العسرة، فكان من اوثق اعمالي في نفسي، فكان لي اجير، فقاتل إنسانا فعض احدهما، إصبع صاحبه فانتزع إصبعه فاندر ثنيته فسقطت، فانطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاهدر ثنيته، وقال: افيدع إصبعه في فيك تقضمها، قال: احسبه قال: كما يقضم الفحل".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ، فَكَانَ مِنْ أَوْثَقِ أَعْمَالِي فِي نَفْسِي، فَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا، إِصْبَعَ صَاحِبِهِ فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ: أَفَيَدَعُ إِصْبَعَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا، قَالَ: أَحْسِبُهُ قَالَ: كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے، ان کو یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرۃ (غزوۃ تبوک) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنا ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھینچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر پہنچا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت (ٹوٹنے کا) کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ بلکہ فرمایا کہ کیا وہ انگلی تمہارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بھی فرمایا۔ جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔
Narrated Ya`la bin Umaiya: I fought in Jaish-al-Usra (Ghazwa of Tabuk) along with the Prophet and in my opinion that was the best of my deeds. Then I had an employee, who quarrel led with someone and one of the them bit and cut the other's finger and caused his own tooth to fall out. He then went to the Prophet (with a complaint) but the Prophet canceled the suit and said to the complainant, "Did you expect him to let his finger in your mouth so that you might snap and cut it (as does a stallion camel)?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 466
(مرفوع) قال ابن جريج: وحدثني عبد الله بن ابي مليكة، عن جده بمثل هذه الصفة، ان رجلا عض يد رجل، فاندر ثنيته، فاهدرها ابو بكر رضي الله عنه.(مرفوع) قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ جَدِّهِ بِمِثْلِ هَذِهِ الصِّفَةِ، أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، فَأَهْدَرَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ (دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
Narrated Ibn Juraij from `Abdullah bin Abu Mulaika from his grandfather a similar story: A man bit the hand of another man and caused his own tooth to fall out, but Abu Bakr judged that he had no right for compensation (for the broken tooth).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 466
6. باب: ایک شخص کو ایک میعاد کے لیے نوکر رکھ لینا اور کام بیان نہ کرنا۔
(6) Chapter. If somebody employs someone and tells him the period for which he is employed, is it permissible for him not to tell him the nature of the work?
لقوله: {إني اريد ان انكحك إحدى ابنتي هاتين} إلى قوله: {على ما نقول وكيل} ياجر فلانا يعطيه اجرا، ومنه في التعزية اجرك الله.لِقَوْلِهِ: {إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ} إِلَى قَوْلِهِ: {عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ} يَأْجُرُ فُلاَنًا يُعْطِيهِ أَجْرًا، وَمِنْهُ فِي التَّعْزِيَةِ أَجَرَكَ اللَّهُ.
سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ نے (شعیب علیہ السلام کا قول یوں) بیان فرمایا ہے کہ «إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين»”میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں“ آخر آیت «على ما نقول وكيل» تک۔ عربوں کے ہاں «يأجر فلانا» بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے «أجرك الله.»(اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے)۔