صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
6. بَابُ مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَبَيَّنَ لَهُ الأَجَلَ وَلَمْ يُبَيِّنِ الْعَمَلَ:
باب: ایک شخص کو ایک میعاد کے لیے نوکر رکھ لینا اور کام بیان نہ کرنا۔
لِقَوْلِهِ: {إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ} إِلَى قَوْلِهِ: {عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ} يَأْجُرُ فُلاَنًا يُعْطِيهِ أَجْرًا، وَمِنْهُ فِي التَّعْزِيَةِ أَجَرَكَ اللَّهُ.
سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ نے (شعیب علیہ السلام کا قول یوں) بیان فرمایا ہے کہ «إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين» ”میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں“ آخر آیت «على ما نقول وكيل» تک۔ عربوں کے ہاں «يأجر فلانا» بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے «أجرك الله.» (اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے)۔