(مرفوع) قال ابن جريج: وحدثني عبد الله بن ابي مليكة، عن جده بمثل هذه الصفة، ان رجلا عض يد رجل، فاندر ثنيته، فاهدرها ابو بكر رضي الله عنه.(مرفوع) قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ جَدِّهِ بِمِثْلِ هَذِهِ الصِّفَةِ، أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، فَأَهْدَرَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ (دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
Narrated Ibn Juraij from `Abdullah bin Abu Mulaika from his grandfather a similar story: A man bit the hand of another man and caused his own tooth to fall out, but Abu Bakr judged that he had no right for compensation (for the broken tooth).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 466
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2266
حدیث حاشیہ: باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ ؓ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت ﷺ کو ہو گئی اور آپ ﷺ نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت ﴿يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ﴾(التوبة: 94) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2266
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2266
حدیث حاشیہ: اگرچہ جہاد کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہے لیکن یہ مقصد خادم سے مدد لینے کے منافی نہیں، تاہم جنگ کرنے کے لیے مزدور رکھنا جائز نہیں کہ اسے محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے اور خود پیچھے رہے کیونکہ جہاد، ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ اللہ کا دین بلند ہو۔ اس فریضے میں نیابت صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جہاد میں ذاتی خدمت کےلیے مزدور کو ساتھ لے جانا جائز ہے کیونکہ حضرت یعلی بن امیہ ؓ نے اپنے ساتھ مزدور رکھا تھا۔ (فتح الباري: 560/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2266