Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ اسْتِئْجَارِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ:
باب: کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
حدیث نمبر: 2261
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ، فَقُلْتُ: مَا عَمِلْتُ، أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، فَقَالَ:" لَنْ، أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ (میرے قبیلہ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہشمند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ «لن» یا لفظ «لا» استعمال فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2261 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2261  
حدیث حاشیہ:
لفظ اجارات اجارۃ کی جمع ہے۔
اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔
مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔
باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری ؒ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ں سے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔
اس سلسلہ میں امام بخاری ؒ نے آیت إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔
باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔
حضرت شعیب ؑ نے پوچھا کہ تجھے کیو ں کر معلوم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ ؑ نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔
حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔
اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔
اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گا اور اسی پر چلوں گا۔
حضرت موسیٰ ؑ کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب ؑ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔
اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب ؑ سے حضرت موسیٰ ؑ کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔
بہرحال امیر المحدثین امام بخاری ؒ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔
وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔
ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔
مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی ؒ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں:
قال العلماء و الحکمة في أنه لا یولی من سأل الولایة أنه یوکل إلیها و لا تکون معه إعانة کما صرح به في حدیث عبدالرحمن بن سمرة السابق و إذا لم تکن معه إعانة لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لأن فیه تمهة للطالب و الحرص۔
(نووي)
یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔
اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔
اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔
علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔
حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری ؒ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔
خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔
اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَقد روى بن جَرِيرٍ مِنْ طَرِيقِ شُعَيْبٍ الْجَبَئِيِّ بِفَتْحِ الْجِيمِ وَالْمُوَحَّدَةِ بَعْدَهَا هَمْزَةٌ مَقْصُورًا أَنَّهُ قَالَ اسْمُ الْمَرْأَةِ الَّتِي تَزَوَّجَهَا مُوسَى صَفُورَةُ وَاسْمُ أُخْتِهَا ليا وَكَذَا روى من طَرِيق بن إِسْحَاقَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ اسْمُ أُخْتِهَا شرقا وَقِيلَ ليا وَقَالَ غَيْرُهُ إِنَّ اسْمَهُمَا صَفُورَا وعبرا وأنهما كَانَتَا توأما وَذكر بن جَرِيرٍ اخْتِلَافًا فِي أَنَّ أَبَاهُمَا هَلْ هُوَ شُعَيْب النَّبِي أَو بن أَخِيهِ أَوْ آخَرُ اسْمُهُ يثرُونَ أَوْ يثرَى أَقْوَالٌ لَمْ يُرَجِّحْ مِنْهَا شَيْئًا وَرُوِيَ مِنْ طَرِيقِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقوي الْأمين قَالَ قَوِيٌّ فِيمَا وُلِّيَ أَمِينٌ فِيمَا اسْتُوْدِعَ وروى من طَرِيق بن عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٍ فِي آخَرِينَ أَنَّ أَبَاهَا سَأَلَهَا عَمَّا رَأَتْ مِنْ قُوَّتِهِ وَأَمَانَتِهِ فَذَكَرَتْ قُوَّتَهُ فِي حَالِ السَّقْيِ وَأَمَانَتَهُ فِي غَضِّ طَرْفِهِ عَنْهَا وَقَوْلِهِ لَهَا امْشِي خَلْفِي وَدُلِّينِي عَلَى الطَّرِيقِ وَهَذَا أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَزَادَ فِيهِ فَزَوَّجَهُ وَأَقَامَ مُوسَى مَعَه يَكْفِيهِ وَيَعْمَلُ لَهُ فِي رِعَايَةِ غَنَمِهِ۔
(فتح الباری)
دختر حضرت شعیب ؑ کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ ؑ نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام لیا تھا۔
بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔
اور بعض نے الیا اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔
اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔
حضرت ابن عباس ؓ نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی (طاقتور)
ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔
اور امین (امانت دار)
ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔
اور ابن عبا س ؓ اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔
تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔
اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ ؑ کو نظر آگیا تھا۔
تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔
پس حضرت شعیب ؑ نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ ؑ سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ ؑ کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔
جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔
اور حضرت موسیٰ ؑ نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔
اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ ؑ کو حضرت شعیب ؑ کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے:
قال كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ طسم، حَتَّى إِذَا بَلَغَ قِصَّةَ مُوسَى، قَالَ:
«إِنَّ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَرَ نَفْسَهُ ثَمَانِيَ سِنِينَ، أَوْ عَشْرًا، عَلَى عِفَّةِ فَرْجِهِ، وَطَعَامِ بَطْنِهِ» أخرجه ابن ماجة وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب ؑ کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔
المجموع شرح المهذب للأستاذ المحقق محمد نجیب المطیعي میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الإجارة علی المنافع المباحة و الدلیل علیه قوله تعالیٰ فإن أرضعن لکم فأتوهن أجورهن۔
(الجزءالرابع عشر، ص255)
یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔
معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔
مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2261   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2261  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔
رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کررہے تھے۔
ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہدہ طلب کیا تو حضرت موسیٰ ؓ نے وضاحت کی:
اللہ کے رسول! مجھے ان کی ذہنیت کا قطعاً کوئی علم نہ تھا۔
(صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، حدیث: 6923)
ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا:
اللہ کے رسول! ہمیں کسی عہدے پر مامور کیجیے، دوسرے نے بھی اسی طرح کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اور اس کی حرص رکھتا ہو،ہم اسے عہدے پر مامور نہیں کرتے۔
(صحیح البخاري،الأحکام، حدیث: 7149)
(2)
روایات میں اس قسم کا اختصار اور اس کی تفصیل چنداں نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن اصلاحی صاحب راویوں کے اس انداز سے بہت برہم ہیں۔
راویانِ حدیث کے خلاف ان کے خبث باطن کا اظہار اس طرح ہوا ہے، لکھتے ہیں:
اس روایت میں راوی نے عبارت میں سے بہت کچھ اڑادیاہے......راوی حضرات بیان میں اس قسم کے ہاتھی نگل جاتے ہیں، اس کے بعد اپنی طرف سے اس روایت کا مفہوم متعین کیا ہے جو دوسری روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔
(تدبرحدیث: 548/1، 549) (3)
بالعموم کسی کام کی درخواست اجرت لینے کےلیے ہوتی ہے۔
اس سے اجارہ ثابت ہوتا ہے۔
دیگر ذرائع معاش کو چھوڑ کر نوکری کی درخواست دینا انسان کی طمع اور لالچ کی علامت ہے،لہٰذا شریعت کا یہ کلیہ ہے کہ جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اسے خارج از بحث کردیا جائے، ہاں اگر کسی کو خود پر اعتماد ہوکہ وہ قوم کی مصلحتوں کو دوسروں کی نسبت بہتر سمجھتا ہے اور وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بھی ہے تو اس کے لیے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ نے عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔
جہاں خیانت کا گمان ہویا شبہ ہوکہ طالب عہدہ کام کو نہیں نبھا سکے گا یا اچھی طرح سر انجام نہیں دے گا تو وہاں طالب عہدہ کو عامل (سرکاری اہل کار)
نہ بنایا جائے۔
یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی طالب کو مزدور ہی نہ بنایا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے تو اجارات کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔
بسا اوقات مزدوروں کاپتہ ہی نہیں چلتا جب تک وہ مزدوری طلب نہ کریں۔
(4)
واضح رہے کہ اسلام کا مذکورہ زریں اصول شاید عہد نبوت اور خلافت راشدہ ہی میں استعمال کیا گیا ہو۔
اب اہلیت کے بجائے خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، دوسری طرف نوکری کا حصول اور اس کےلیے دفاتر کی خاک چھاننا اور بھاری رشوتیں پیش کرنا ایک عام فیشن بن گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2261   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 4  
´کیا حاکم اپنی رعیت کے سامنے مسواک کر سکتا ہے؟`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ!) تم جاؤ (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 4]
4۔ اردو حاشیہ:
➊ مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ [صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: 2846]
گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
➋ کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کواللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6622، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: 1652]
لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سے نے کہا: تھا: «اِجَعَلْنِيْ عَلٰي خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ» [يوسف 55: 12]
مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔ [سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 531]
➌ مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ «قَلَصَتْ» اس پر دلالت کرتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5384  
´قاضی بنائے جانے کے خواہشمند کو قاضی نہ بنایا جائے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم سے اپنا کوئی کام لیجئیے ۱؎ میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چنانچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا: ہم اپنے کام (عہدے) میں ایسے لوگو [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5384]
اردو حاشہ:
جو شخص عہدے کا حریص ہو، وہ دیانت داری کےساتھ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکے گا۔ وہ اپنے عہدے کو شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا، نیز اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق بھی حاصل نہیں ہوگی، لہٰذا اسے عہدے پر مقرر نہ کیا جائے۔ البتہ اگر حکومت خود درخواستیں طلب کرے تو درخواست دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے شخص کو عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 4)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5384   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1031  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق جو پہلے اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا تھا مروی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا تاوقتیکہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ اسے قتل سے پہلے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1031»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين، باب حكم المرتد والمرتدة واستتابتهم، حديث:6923، ومسلم، الإمارة، باب النهي عن طلب الإمارة والحرص عليها، حديث:1733، وأبوداود، الحدود، حديث:4355.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد کو سزائے ارتداد سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اسے توبہ کے لیے باقاعدہ کہا جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے مگر بعض دوسرے علماء اور ظاہریہ اسے واجب تسلیم نہیں کرتے۔
2.حدیث: مَنْ بَدَّلَ… الخ میں لفظ مَنْ عام ہے‘ یعنی مرتد مرد ہو یا عورت دونوں کو اسلام کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دینے کے بعد ان کے انکار پر مصر رہنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی عورت کو اس کے ارتداد کی سزا میں قتل کیا گیا۔
اس وقت کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتد کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
4. اس واقعہ سے درج ذیل مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں: ٭ امیر ریاست کو عاملوں (گورنروں) کا تقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ ایک وقت میں دو عاملوں کا تقرر بھی جائز ہے۔
٭ گورنر کا فرض ہے کہ مرتد کو سزائے ارتداد دے اور شرعی حدود نافذ کرے۔
٭ اپنی تقرری کی جگہ سواری پر جانا ثابت ہے۔
٭ حاکم کی طرف سے مقرر کردہ گورنر اور وزیر کا احترام بھی کرنا چاہیے۔
٭ شرعی سزا کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ تحقیق و تفتیش کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو۔
٭ مجرم کو جکڑنا جائز ہے۔
٭ سزا کا اجرا و نفاذ لوگوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1031   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4354  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ابوموسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4354]
فوائد ومسائل:
1) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔
مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔

2) مہمان کا حق ہے کہ اس کی عزت افزائی کی جائے۔

3) منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

4) حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔

5) مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے، مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے، مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4354   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1169  
1169- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب کسی شخص کا تسمہ ٹوٹ جائے، تو وہ ایک جوتا پہن کرنہ چلے اور ایک موزہ پہن کرنہ چلے جب تک وہ دوسرے کو ٹھیک نہیں کروا لیتا جب کوئی شخص جوتا پہننے لگے، تو پہلے دائیں پاؤں میں پہنے اور جب اتارنے لگے، تو پہلے بائیں سے اتارے، دایاں پاؤں پہنتے ہوئے پہلے ہونا چاہئے اور اتارتے ہوئے بعد میں ہونا چاہئے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1169]
فائدہ:
وو اس حدیث میں ایک جوتا پہن کر چلنے سے منع کیا گیا ہے، اور موزہ اور جوتا پہنتے وقت دائیں طرف کا خیال رکھنا چاہیے، جیسا کہ اور احادیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ:
«‏‏‏‏يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفي شانه كله»
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی بڑی عزت رکھی ہے، کہ ایک پاؤں کے ساتھ وہ نہ چلے، بلکہ دونوں پاؤں کے ساتھ چلے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہر اچھا کام دائیں طرف سے اور ہر برا کام بائیں طرف سے شروع کرنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1167   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4718  
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ان میں سے ایک میری دائیں طرف اور دوسرا میری بائیں جانب تھا، دونوں نے عہدہ کا سوال کیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو آپﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، مجھے ان دونوں نے اپنے دل کی بات سے باخبر نہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4718]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور اس حد کو نافذ کرنا،
اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،
تفصیل كتاب القسامة والمحاربين میں گزرچکی ہے۔
اور اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے،
اگر انسان رات کو اس نیت سے سوتا ہے،
تاکہ قیام اللیل کے لیے قوت اور چوکسی حاصل کرسکے اور اطمینان قلبی کے ساتھ کھڑا ہوسکے،
تو یہ سونا بھی اجرو ثواب کا باعث ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4718   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6923  
6923. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کر رہے تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عہدے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، انہوں نے اپنے دل کی بات سے مجھے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ مجھے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ دونوں عہدہ طلبی کے لیے آئے ہیں، گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی مسواک آپ کے ہونٹوں تلے دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ہم سے عہدہ طلب کرتا ہے ہم اسے وہ عہدہ نہیں دیتے لیکن اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! تم (خدمت کی بجا آوری کے لیے) یمن جاؤ اس کے بعد آپ نے حضرت معاذ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6923]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ درخواست کرنے سے معلوم ہوتا ہے چکھنے کی نیت ہے ورنہ سرکاری خدمت ایک بلا ہے پرہیز گار اور عقل مند آدمی ہمیشہ اس سے بھاگتا رہتا ہے۔
خصوصاً تحصیل یا عدالت کی خدمات ان میں اکثر ظلم و جبر اور خلاف شرع کام کرنا ہوتا ہے ان دونوں کو تو میں کوئی خدمت نہیں دینے کا۔
آپ نے ولایت یمن کے دو حصے کر کے ایک حصہ کی حکومت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسری معاذ رضی اللہ عنہ کو دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6923   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6923  
6923. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کر رہے تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عہدے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، انہوں نے اپنے دل کی بات سے مجھے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ مجھے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ دونوں عہدہ طلبی کے لیے آئے ہیں، گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی مسواک آپ کے ہونٹوں تلے دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ہم سے عہدہ طلب کرتا ہے ہم اسے وہ عہدہ نہیں دیتے لیکن اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس! تم (خدمت کی بجا آوری کے لیے) یمن جاؤ اس کے بعد آپ نے حضرت معاذ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6923]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث چار شرعی احکام پر مشتمل ہے:
٭مسواک کی اہمیت وافادیت۔
٭عہدہ طلب کرنے کی مذمت۔
٭حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حکومتی خدمت کے لیے یمن روانہ کرنا۔
٭یہودی کا ذکر جس نے مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ یہودیت کو اختیار کر لیا۔
اس مقام پر یہ آخری واقعہ بیان کرنا مقصود ہے۔
ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن میں تعلیم وتربیت کے لیے روانہ کیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو وہاں ایک آدمی کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا۔
انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا:
اے بھائی! کیا تم لوگوں کو ایذا رسانی کے لیے بھیجے گئے ہو؟ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا تھا کہ ہم لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور ایسی باتوں کی رہنمائی کریں جو ان کے لیے نفع بخش ہوں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ مسلمان ہو کر دین سے پھر (مرتد ہو)
گیا ہے۔
چنانچہ یہ وضاحت سن کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا:
مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے آگ میں جلانہ دوں، چنانچہ وہاں لکڑیاں جلا کر آگ کا الاؤ تیار کیا گیا اور اس کی مشکیں باندھ کر اس میں ڈال دیا گیا۔
(مجمع الذوائد للهیثمي: 261/6) (2)
ممکن ہے کہ اسے قتل کر کے مزید رسوا کرنے کے لیے اس کی لاش کو آگ میں ڈال دیا گیا ہو اور حضرت معاذ اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایسے حالات میں جلانا جائز سمجھتے ہوں۔
بہرحال حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے بیس دن تک سمجھایا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بھی اسے دین اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا تو اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ مرتد مرد اور عورت کو دعوت اسلام دینے کے بعد قتل کرنا چاہیے، اگر دین اسلام میں واپس آجائے تو اسے مزید موقع دیا جائے۔
(فتح الباري: 343/12، 344)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6923