(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا إسحاق بن عيسى، عن شريك، عن ابي اليقظان، عن زاذان، عن حذيفة، قال: قالوا: يا رسول الله لو استخلفت، قال: " إن استخلفت عليكم فعصيتموه عذبتم، ولكن ما حدثكم حذيفة فصدقوه، وما اقراكم عبد الله فاقرءوه ". قال عبد الله: فقلت لإسحاق بن عيسى: يقولون هذا عن ابي وائل؟ قال: لا، عن زاذان إن شاء الله، قال: هذا حسن حديث شريك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوِ اسْتَخْلَفْتَ، قَالَ: " إِنِ اسْتَخْلفْتُ عَلَيْكُمْ فَعَصَيْتُمُوهُ عُذِّبْتُمْ، وَلَكِنْ مَا حَدَّثَكُمْ حُذَيْفَةُ فَصَدِّقُوهُ، وَمَا أَقْرَأَكُمْ عَبْدُ اللَّهِ فَاقْرَءُوهُ ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ لِإِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى: يَقُولُونَ هَذَا عَنْ أَبِي وَائِلٍ؟ قَالَ: لَا، عَنْ زَاذَانَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: هَذَا حَسَنٌ حَدِيثُ شَرِيكٍ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اپنا جانشین مقرر فرما دیتے، آپ نے فرمایا: ”اگر میں نے اپنا جانشین مقرر کر دیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو تم عذاب دیئے جاؤ گے، البتہ حذیفہ جو کچھ تم سے کہیں تم ان کی تصدیق کرو“، اور جو عبداللہ (عبداللہ بن مسعود)۱؎ تمہیں پڑھائیں انہیں پڑھ لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور یہ شریک کی روایت سے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3322) (ضعیف) (سند میں ابوالیقظان اور شریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، ابوالیقظان شیعی بھی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث شریک اور ابوالیقظان کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے، مگر خلافت کے بارے میں ابن مسعود کی وصیت کی بابت ایک صحیح حدیث (رقم: (۳۸۱۸) گزر چکی ہے، اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ آپ نے واضح طور پر اپنے جانشین کا نام تو نہیں بتایا، مگر حذیفہ رضی اللہ کی احالہ کر کے اشارہ کر دیا کہ جو حذیفہ بتائیں، وہی میری بات ہے، ابوحذیفہ نے ابوبکر رضی الله عنہ کے بارے میں بعد میں بتا دیا، (نیز دیکھئیے حدیث رقم: ۲/۳۸)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6232)
قال الشيخ زبير على زئي: (3812) إسناده ضعيف أبو اليقظان: ضعيف (تقدم:126)
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا محمد بن بكر، عن ابن جريج، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عمر، انه فرض لاسامة بن زيد في ثلاثة آلاف وخمس مائة، وفرض لعبد الله بن عمر في ثلاثة آلاف، قال عبد الله بن عمر لابيه: لم فضلت اسامة علي؟ فوالله ما سبقني إلى مشهد، قال: " لان زيدا كان احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من ابيك، وكان اسامة احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، فآثرت حب رسول الله صلى الله عليه وسلم على حبي ". قال: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ فَرَضَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِأَبِيهِ: لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ؟ فَوَاللَّهِ مَا سَبَقَنِي إِلَى مَشْهَدٍ، قَالَ: " لِأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِيكَ، وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ، فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حُبِّي ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
اسلم عدوی مولیٰ عمر سے روایت ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا، وظیفہ مقرر کیا، اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے اپنے باپ سے عرض کیا: آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی؟ اللہ کی قسم! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے، تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10401) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف راوی ہیں)»
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد ہی کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ آیت کریمہ «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله»”تم متبنی (لے پالک) لوگوں کو ان کے اپنے باپوں کے نام پکارا کرو، یہی بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف بات ہے“(الاحزاب: ۵)، نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا الجراح بن مخلد البصري، وغير واحد، قالوا: حدثنا محمد بن عمر بن الرومي، حدثنا علي بن مسهر، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن ابي عمرو الشيباني، قال: اخبرني جبلة بن حارثة اخو زيد، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله ابعث معي اخي زيدا، قال: " هو ذا، قال: فإن انطلق معك لم امنعه "، قال زيد: يا رسول الله , والله لا اختار عليك احدا، قال: فرايت راي اخي افضل من رايي. قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن الرومي، عن علي بن مسهر.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَبَلَةُ بْنُ حَارِثَةَ أَخُو زَيْدٍ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْعَثْ مَعِي أَخِي زَيْدًا، قَالَ: " هُوَ ذَا، قَالَ: فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَكَ لَمْ أَمْنَعْهُ "، قَالَ زَيْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَاللَّهِ لَا أَخْتَارُ عَلَيْكَ أَحَدًا، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَأْيَ أَخِي أَفْضَلَ مِنْ رَأْيِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الرُّومِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ.
زید بن حارثہ رضی الله عنہ کے بھائی جبلہ بن حارثہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”وہ موجود ہیں اگر تمہارے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں تو میں انہیں نہیں روکوں گا“، یہ سن کر زید نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیار نہیں کر سکتا، جبلہ کہتے ہیں: تو میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے افضل تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن رومی کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ علی بن مسہر سے روایت کرتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك بن انس، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا , وامر عليهم اسامة بن زيد، فطعن الناس في إمارته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن تطعنوا في إمرته , فقد كنتم تطعنون في إمرة ابيه من قبل، وايم الله إن كان لخليقا للإمارة , وإن كان من احب الناس إلي، وإن هذا من احب الناس إلي بعده ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا , وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمَارَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ , فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ , وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کر چکے ہو ۱؎، قسم اللہ کی! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، عن سعيد بن عبيد بن السباق، عن محمد بن اسامة بن زيد، عن ابيه، قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم هبطت وهبط الناس المدينة، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اصمت , فلم يتكلم، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يديه علي ويرفعهما , فاعرف انه يدعو لي ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَبَطْتُ وَهَبَطَ النَّاسُ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُصْمَتَ , فَلَمْ يَتَكَلَّمْ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَيْهِ عَلَيَّ وَيَرْفَعُهُمَا , فَأَعْرِفُ أَنَّهُ يَدْعُو لِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدید ہو گئی تو میں ( «جرف» سے) اتر کر مدینہ آیا اور (میرے ساتھ) کچھ اور لوگ بھی آئے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر گیا تو آپ کی زبان بند ہو چکی تھی، پھر اس کے بعد آپ کچھ نہیں بولے، آپ اپنے دونوں ہاتھ میرے اوپر رکھتے اور اٹھاتے تھے تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ آپ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن طلحة بن يحيى، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان ينحي مخاط اسامة، قالت عائشة: دعني حتى اكون انا الذي افعل، قال: " يا عائشة احبيه فإني احبه ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ، قَالَ: " يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا ۱؎ تو میں نے کہا: آپ چھوڑیں میں صاف کئے دیتی ہوں، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! تم اس سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں“۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب اسامہ بچے تھے، آدمی اسی بچے کی ناک پونچھتا ہے جس سے انتہائی محبت رکھتا ہے، جیسے اپنے بچے بسا اوقات آدمی کسی رشتہ دار یا دوست کے بچے سے محبت تو رکھتا ہے لیکن اس کی محبت میں اس حد تک نہیں جاتا کہ اس کی ناک پونچھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ کی ناک پونچھنے کے لیے اٹھنا ان سے آپ کی انتہائی محبت کی دلیل ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا عمر بن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابيه، قال: اخبرني اسامة بن زيد، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاء علي , والعباس يستاذنان، فقالا: يا اسامة استاذن لنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله علي , والعباس يستاذنان، فقال: " اتدري ما جاء بهما؟ " , قلت: لا ادري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لكني ادري " , فاذن لهما، فدخلا فقالا: يا رسول الله جئناك نسالك اي اهلك احب إليك؟ قال: " فاطمة بنت محمد "، فقالا: ما جئناك نسالك عن اهلك، قال: " احب اهلي إلي من قد انعم الله عليه , وانعمت عليه اسامة بن زيد "، قالا: ثم من؟ قال: " ثم علي بن ابي طالب "، قال العباس: يا رسول الله جعلت عمك آخرهم، قال: لان عليا قد سبقك بالهجرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن وكان شعبة يضعف عمر بن ابي سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَا: يَا أُسَامَةُ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِهِمَا؟ " , قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكِنِّي أَدْرِي " , فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلَا فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ "، فَقَالَا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ، قَالَ: " أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، قَالَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ "، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ، قَالَ: لِأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس رضی الله عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو معلوم ہے“، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”فاطمہ بنت محمد“، تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں“، وہ دونوں بولے: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ”پھر علی بن ابی طالب ہیں“، عباس بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کر دیا، آپ نے فرمایا: ”علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ: عمر بن ابی سلمہ کو ضعیف قرار دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 123) (ضعیف) (سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6168) // ضعيف الجامع الصغير (168) باختصار //
جریر بن عبداللہ بجلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اجازت مانگنے پر اندر داخل ہونے سے) منع نہیں فرمایا ۱؎ اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی آپ نے اجازت دیدی، منع نہیں کیا، اجازت کے بعد مستورات کو پردہ کرا کر اندر آنے دینے میں کوئی حرج نہیں، اس سے خواہ مخواہ یہ نکتہ نکالنے کی ضرورت نہیں کہ اس سے خاص مردانہ حلیہ مراد ہے، ہر بار اجازت لینے پر اندر آنے کی اجازت دے دینا اس آدمی سے خاص لگاؤ کی دلیل ہے۔