(مرفوع) حدثنا العباس العنبري، حدثنا النضر بن محمد، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني ابو زميل هو سماك بن الوليد الحنفي , عن مالك بن مرثد، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اظلت الخضراء، ولا اقلت الغبراء من ذي لهجة اصدق , ولا اوفى من ابي ذر شبه عيسى ابن مريم عليه السلام "، فقال عمر بن الخطاب: كالحاسد يا رسول الله افتعرف ذلك له؟ قال: " نعم، فاعرفوه له ". قال: هذا حسن غريب هذا الوجه، وقد روى بعضهم هذا الحديث , فقال: ابو ذر يمشي في الارض بزهد عيسى ابن مريم عليه السلام.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ , عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ، وَلَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ مِنْ ذِي لَهْجَةٍ أَصْدَقَ , وَلَا أَوْفَى مِنْ أَبِي ذَرٍّ شِبْهِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كَالْحَاسِدِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَتَعْرِفُ ذَلِكَ لَهُ؟ قَالَ: " نَعَمْ، فَاعْرِفُوهُ لَهُ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ , فَقَالَ: أَبُو ذَرٍّ يَمْشِي فِي الْأَرْضِ بِزُهْدِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے - جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں - زیادہ زبان کا سچا اور اس کا پاس و لحاظ رکھنے والا ہو“، یہ سن کر عمر بن خطاب رضی الله عنہ رشک کے انداز میں بولے: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ بات انہیں بتا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، بتا دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اور بعضوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ابوذر زمین پر عیسیٰ بن مریم کی زاہدانہ چال چلتے ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي، حدثنا ابو محياة يحيى بن يعلى بن عطاء، عن عبد الملك بن عمير، عن ابن اخي عبد الله بن سلام، قال: لما اريد قتل عثمان جاء عبد الله بن سلام فقال له عثمان: ما جاء بك؟ قال: جئت في نصرك، قال: اخرج إلى الناس فاطردهم عني , فإنك خارجا خير لي منك داخلا، فخرج عبد الله إلى الناس , فقال: " ايها الناس إنه كان اسمي في الجاهلية فلان فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله، ونزلت في آيات من كتاب الله , فنزلت في: وشهد شاهد من بني إسرائيل على مثله فآمن واستكبرتم إن الله لا يهدي القوم الظالمين سورة الاحقاف آية 10 ونزلت في: قل كفى بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب سورة الرعد آية 43 إن لله سيفا مغمودا عنكم، وإن الملائكة قد جاورتكم في بلدكم هذا الذي نزل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالله الله في هذا الرجل ان تقتلوه , فوالله لئن قتلتموه لتطردن جيرانكم الملائكة، ولتسلن سيف الله المغمود عنكم، فلا يغمد عنكم إلى يوم القيامة، قالوا: اقتلوا اليهودي، واقتلوا عثمان ". قال ابو عيسى: هذا غريب، إنما نعرفه من حديث عبد الملك بن عمير، وقد روى شعيب بن صفوان هذا الحديث عن عبد الملك بن عمير، فقال: عن ابن محمد بن عبد الله بن سلام، عن جده عبد الله بن سلام.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ يَحْيَى بْنُ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا أُرِيدَ قَتْلُ عُثْمَانَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: جِئْتُ فِي نَصْرِكَ، قَالَ: اخْرُجْ إِلَى النَّاسِ فَاطْرُدْهُمْ عَنِّي , فَإِنَّكَ خَارِجًا خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلًا، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ , فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فُلَانٌ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ، وَنَزَلَتْ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ , فَنَزَلَتْ فِيَّ: وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ سورة الأحقاف آية 10 وَنَزَلَتْ فِيَّ: قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سورة الرعد آية 43 إِنَّ لِلَّهِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاللَّهَ اللَّهَ فِي هَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوهُ , فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمُ الْمَلَائِكَةَ، وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللَّهِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ، فَلَا يُغْمَدُ عَنْكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالُوا: اقْتُلُوا الْيَهُودِيَّ، وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، وَقَدْ رَوَى شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، فَقَالَ: عَنِ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے عثمان رضی الله عنہ کے قتل کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن سلام عثمان رضی الله عنہ کے پاس آئے، عثمان رضی الله عنہ نے ان سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں آپ کی مدد کے لیے آیا ہوں تو آپ نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس آنے سے بھگاؤ کیونکہ تمہارا باہر رہنا میرے حق میں تمہارے اندر رہنے سے زیادہ بہتر ہے، چنانچہ عبداللہ بن سلام نکل کر لوگوں کے پاس آئے اور ان سے کہا: لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبداللہ رکھا، اور میری شان میں اللہ کی کتاب کی کئی آیتیں نازل ہوئیں، چنانچہ «وشهد شاهد من بني إسرائيل على مثله فآمن واستكبرتم إن الله لا يهدي القوم الظالمين»۱؎ «قل كفى بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب»۲؎ میرے ہی سلسلہ میں اتری، اللہ کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے تمہارے اس شہر مدینہ میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے تمہارے ہمسایہ ہیں، لہٰذا تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو، قسم اللہ کی! اگر تم نے اسے قتل کر دیا، تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو اپنے پاس سے بھگا دو گے، اور اللہ کی تلوار کو جو میان میں ہے باہر کھینچ لو گے، پھر وہ قیامت تک میان میں نہیں آ سکے گی تو لوگ ان کی یہ نصیحت سن کر بولے: اس یہودی کو قتل کرو اور عثمان کو بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالملک بن عمیر کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- شعیب بن صفوان نے بھی حدیث عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے، انہوں نے سند میں «عن ابن محمد بن عبد الله بن سلام عن جده عبد الله بن سلام» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3256 (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد ومضى برقم (3309) // (642 / 3486) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3803) إسناده ضعيف / تقدم:3256
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي إدريس الخولاني، عن يزيد بن عميرة، قال: لما حضر معاذ بن جبل الموت قيل له: يا ابا عبد الرحمن اوصنا، قال: اجلسوني، فقال: إن العلم والإيمان مكانهما من ابتغاهما وجدهما، يقول ذلك ثلاث مرات، والتمسوا العلم عند اربعة رهط: عند عويمر ابي الدرداء، وعند سلمان الفارسي، وعند عبد الله بن مسعود، وعند عبد الله بن سلام الذي كان يهوديا فاسلم، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إنه عاشر عشرة في الجنة ". وفي الباب، عن سعد، قال: وهذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عُمَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْمَوْتُ قِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَوْصِنَا، قَالَ: أَجْلِسُونِي، فَقَالَ: إِنَّ الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ مَكَانَهُمَا مَنَ ابْتَغَاهُمَا وَجَدَهُمَا، يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَالْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَةِ رَهْطٍ: عِنْدَ عُوَيْمِرٍ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَعِنْدَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، وَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ الَّذِي كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّهُ عَاشِرُ عَشَرَةٍ فِي الْجَنَّةِ ". وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
یزید بن عمیرہ کہتے ہیں کہ جب معاذ بن جبل رضی الله عنہ کے مرنے کا وقت آیا تو ان سے کہا گیا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمیں کچھ وصیت کیجئے، تو انہوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ، پھر بولے: علم اور ایمان دونوں اپنی جگہ پر قائم ہیں جو انہیں ڈھونڈے گا ضرور پائے گا، انہوں نے اسے تین بار کہا، پھر بولے: علم کو چار آدمیوں کے پاس ڈھونڈو: عویمر ابو الدرداء کے پاس، سلمان فارسی کے پاس، عبداللہ بن مسعود کے پاس اور عبداللہ بن سلام کے پاس، (جو یہودی تھے پھر اسلام لائے) کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ان دس لوگوں میں سے ہیں جو جنتی ہیں ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن إسماعيل بن يحيى بن سلمة بن كهيل، حدثني ابي، عن ابيه، عن سلمة بن كهيل، عن ابي الزعراء، عن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقتدوا باللذين من بعدي من اصحابي ابي بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار، وتمسكوا بعهد ابن مسعود ". قال: هذا حسن غريب هذا الوجه من حديث ابن مسعود، لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن سلمة بن كهيل، ويحيى بن سلمة يضعف في الحديث، وابو الزعراء اسمه: عبد الله بن هانئ، وابو الزعراء الذي روى عنه شعبة , والثوري , وابن عيينة اسمه: عمرو بن عمرو وهو ابن اخي ابي الاحوص صاحب عبد الله بن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ يَحْيَى بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ، وَتَمَسَّكُوا بِعَهْدِ ابْنِ مَسْعُودٍ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَيَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَأَبُو الزَّعْرَاءِ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَانِئٍ، وَأَبُو الزَّعْرَاءِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ , وَالثَّوْرِيُّ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ اسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي الْأَحْوَصِ صَاحِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے اصحاب میں سے میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر و عمر کی، اور عمار کی روش پر چلو، اور ابن مسعود کے عہد (وصیت) کو مضبوطی سے تھامے رہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سلمہ حدیث میں ضعیف ہیں، ۳- ابوالزعراء کا نام عبداللہ بن ہانی ٔ ہے، اور وہ ابوالزعراء جن سے شعبہ، ثوری اور ابن عیینہ نے روایت کی ہے ان کا نام عمرو بن عمرو ہے، اور وہ عبداللہ بن مسعود کے شاگرد ابوالاحوص کے بھتیجے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کے اول و آخر ٹکڑے میں خلافت صدیقی و فاروقی کی طرف اشارہ ہے، ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی اقتداء سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بالترتیب ان دونوں کی خلافت ہے، اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی وصیت سے مراد بھی یہی ہے کہ انہوں نے ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت کی تائید کی تھی، یہی مراد ہے، ان کی وصیت مضبوطی سے تھامنے سے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (97)، وانظر الحديث (4069)
(موقوف) حدثنا حدثنا ابو كريب، حدثنا إبراهيم بن يوسف بن ابي إسحاق، عن ابيه، عن ابي إسحاق، عن الاسود بن يزيد، انه سمع ابا موسى يقول: " لقد قدمت انا واخي من اليمن , وما نرى حينا إلا ان عبد الله بن مسعود رجل من اهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم لما نرى من دخوله , ودخول امه على النبي صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه سفيان الثوري , عن ابي إسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مُوسَى يَقُولُ: " لَقَدْ قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنَ الْيَمَنِ , وَمَا نُرَى حِينًا إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ , وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں یمن سے آئے تو ہم ایک عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ اہل بیت ہی کے ایک فرد ہیں، کیونکہ ہم انہیں اور ان کی والدہ کو کثرت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ان کے گھر میں) آتے جاتے دیکھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- سفیان ثوری نے بھی اسے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ازحد قربت اور برابر ساتھ رہنے کی دلیل ہے جو ان کے فضل و شرف کی بات ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ابن مسعود کی ہر روایت اور فتوی ضرور ہی تمام صحابہ کی روایتوں اور فتاوی پر مقدم ہو گا، کیونکہ امہات المؤمنین تک کی بعض روایات یا تو منسوخ ہیں یا انہیں گھر سے باہر کے بعض احوال کا علم نہیں ہو سکا تھا، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: اتينا على حذيفة، فقلنا: حدثنا من اقرب الناس من رسول الله صلى الله عليه وسلم هديا ودلا فناخذ عنه ونسمع منه، قال: " كان اقرب الناس هديا , ودلا , وسمتا برسول الله صلى الله عليه وسلم ابن مسعود حتى يتوارى منا في بيته، ولقد علم المحفوظون من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابن ام عبد هو من اقربهم إلى الله زلفى "، قال: هذا حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَتَيْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ، فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مَنْ أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيًا وَدَلًّا فَنَأْخُذَ عَنْهُ وَنَسْمَعَ مِنْهُ، قَالَ: " كَانَ أَقْرَبُ النَّاسِ هَدْيًا , وَدَلًّا , وَسَمْتًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى يَتَوَارَى مِنَّا فِي بَيْتِهِ، وَلَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ هُوَ مِنْ أَقْرَبِهِمْ إِلَى اللَّهِ زُلْفَى "، قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی الله عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: آپ ہمیں بتائیے کہ لوگوں میں چال ڈھال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے قریب کون ہے کہ ہم اس کے طور طریقے کو اپنائیں، اور اس کی باتیں سنیں؟ تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں چال ڈھال اور طور طریقے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے قریب ابن مسعود رضی الله عنہ ہیں، یہاں تک کہ وہ ہم سے اوجھل ہو کر آپ کے گھر کے اندر بھی جایا کرتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو جو کسی طرح کی تحریف یا نسیان سے محفوظ ہیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ام عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ ان سب میں اللہ سے سب سے نزدیک ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی لوگ جو بیان کریں گے وہ بالکل حقیقت کے مطابق ہو گا، اور انہوں نے یہ بیان کیا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے، اور ان سے ازحد قریب تھے، یہ صحابہ کی زبان سے ابن مسعود کی فضیلت کا اعتراف ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا صاعد الحراني، حدثنا زهير، حدثنا منصور، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كنت مؤمرا احدا من غير مشورة منهم لامرت عليهم ابن ام عبد ". قال ابو عيسى: هذا غريب، إنما نعرفه من حديث الحارث , عن علي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْهُمْ لَأَمَّرْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْحَارِثِ , عَنْ عَلِيٍّ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں بغیر مشورہ کے ان میں سے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حارث کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المدقمة 11 (137) (تحفة الأشراف: 10045) (ضعیف) (سند میں ”حارث اعور“ ضعیف اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (137) // ضعيف سنن ابن ماجة (24)، المشكاة (6222)، ضعيف الجامع الصغير (4844) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3809، 3808) إسناده ضعيف /جه 137 الحارث الأعور:ضعيف (تقدم:282)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف انظر ما قبله (3808)
قال الشيخ زبير على زئي: (3809، 3808) إسناده ضعيف /جه 137 الحارث الأعور:ضعيف (تقدم:282)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق بن سلمة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذوا القرآن من اربعة: من ابن مسعود، وابي بن كعب، ومعاذ بن جبل، وسالم مولى ابي حذيفة ". قال: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ یہ چار صحابہ خاص طور پر قرآن کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرنے، یاد کرنے، بہتر طریقے سے ادا کرنے میں ممتاز تھے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے سوا دیگر صحابہ کو قرآن یاد ہی نہیں تھا، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان سے مروی قراءت کی ضرور ہی پابندی کی جائے، کیونکہ عثمان رضی الله عنہ نے اعلی ترین مقصد کے تحت ایک قراءت کے سوا تمام قراءتوں کو ختم کرا دیا تھا (اس قراءتوں سے مراد معروف سبعہ کی قراءتیں نہیں مراد صحابہ کے مصاحف ہیں)۔
(موقوف) حدثنا حدثنا الجراح بن مخلد البصري، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن خيثمة بن ابي سبرة، قال: اتيت المدينة فسالت الله ان ييسر لي جليسا صالحا , فيسر لي ابا هريرة , فجلست إليه , فقلت له: إني سالت الله ان ييسر لي جليسا صالحا فوفقت لي، فقال لي: " من اين انت؟ "، قلت: من اهل الكوفة جئت التمس الخير واطلبه، قال: " اليس فيكم سعد بن مالك مجاب الدعوة، وابن مسعود صاحب طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم ونعليه، وحذيفة صاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعمار الذي اجاره الله من الشيطان على لسان نبيه، وسلمان صاحب الكتابين "، قال قتادة: والكتابان: الإنجيل , والفرقان. قال: هذا حسن صحيح غريب، وخيثمة هو ابن عبد الرحمن بن ابي سبرة إنما نسب إلى جده.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَسَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسا صالحا , فيسر لِي أَبَا هُرَيْرَةَ , فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ , فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسا صالحا فوفقت لِي، فَقَالَ لِي: " مِنْ أَيْنَ أَنْتَ؟ "، قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ جِئْتُ أَلْتَمِسُ الْخَيْرَ وَأَطْلُبُهُ، قَالَ: " أَلَيْسَ فِيكُمْ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ مُجَابُ الدَّعْوَةِ، وَابْنُ مَسْعُودٍ صَاحِبُ طَهُورِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعْلَيْهِ، وَحُذَيْفَةُ صَاحِبُ سِرِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَّارٌ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ، وَسَلْمَانُ صَاحِبُ الْكِتَابَيْنِ "، قَالَ قَتَادَةُ: وَالْكِتَابَانِ: الْإِنْجِيلُ , وَالْفُرْقَانُ. قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَخَيْثَمَةُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ إِنَّمَا نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
خیثمہ بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں پانے کی دعا کی، چنانچہ اللہ نے مجھے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہم نشینی کی توفیق بخشی ۱؎، میں ان کے پاس بیٹھنے لگا تو میں نے ان سے عرض کیا: میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں کی توفیق مرحمت فرمانے کی دعا کی تھی، چنانچہ مجھے آپ کی ہم نشینی کی توفیق ملی ہے، انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا تعلق اہل کوفہ سے ہے اور میں خیر کی تلاش و طلب میں یہاں آیا ہوں، انہوں نے کہا: کیا تمہارے یہاں سعد بن مالک جو مستجاب الدعوات ہیں ۲؎ اور ابن مسعود جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کے پانی کا انتظام کرنے والے اور آپ کے کفش بردار ہیں اور حذیفہ جو آپ کے ہمراز ہیں اور عمار جنہیں اللہ نے شیطان سے اپنے نبی کی زبانی پناہ دی ہے اور سلمان جو دونوں کتابوں والے ہیں موجود نہیں ہیں۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں: کتابان سے مراد انجیل اور قرآن ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- خیثمہ یہ عبدالرحمٰن بن ابوسبرہ کے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے دادا کی طرف کر دی گئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: ٹھیک یہی معاملہ علقمہ بن قیس کوفی کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، وہ شام آئے تو یہی دعا کی، تو انہیں ابو الدرداء رضی الله عنہ صحبت میسر ہوئی، انہوں بھی علقمہ سے بالکل یہی بات کہی جو اس حدیث میں ہے۔
۲؎: جن کی دعائیں رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ اور یہ سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ ہیں۔
۳؎: انہیں صاحب کتابیں اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ پہلے مجوسی تھے، تلاش حق میں پہلے دین عیسیٰ قبول کئے، پھر مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن پر ایمان لائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: (3811) إسناده ضعيف قتادة مدلس وعنعن (تقدم:30) وللحديث شواهد معنوية