عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے عثمان رضی الله عنہ کے قتل کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن سلام عثمان رضی الله عنہ کے پاس آئے، عثمان رضی الله عنہ نے ان سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں آپ کی مدد کے لیے آیا ہوں تو آپ نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس آنے سے بھگاؤ کیونکہ تمہارا باہر رہنا میرے حق میں تمہارے اندر رہنے سے زیادہ بہتر ہے، چنانچہ عبداللہ بن سلام نکل کر لوگوں کے پاس آئے اور ان سے کہا: لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبداللہ رکھا، اور میری شان میں اللہ کی کتاب کی کئی آیتیں نازل ہوئیں، چنانچہ
«وشهد شاهد من بني إسرائيل على مثله فآمن واستكبرتم إن الله لا يهدي القوم الظالمين» ۱؎ «قل كفى بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب» ۲؎ میرے ہی سلسلہ میں اتری، اللہ کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے تمہارے اس شہر مدینہ میں جس میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اترے تمہارے ہمسایہ ہیں، لہٰذا تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو، قسم اللہ کی! اگر تم نے اسے قتل کر دیا، تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو اپنے پاس سے بھگا دو گے، اور اللہ کی تلوار کو جو میان میں ہے باہر کھینچ لو گے، پھر وہ قیامت تک میان میں نہیں آ سکے گی تو لوگ ان کی یہ نصیحت سن کر بولے: اس یہودی کو قتل کرو اور عثمان کو بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالملک بن عمیر کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- شعیب بن صفوان نے بھی حدیث عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے، انہوں نے سند میں
«عن ابن محمد بن عبد الله بن سلام عن جده عبد الله بن سلام» کہا ہے۔