انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے“، (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔)
امام ترمذی کہتے ہیں: ابواسحاق ہمدانی نے برید بن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی یاد و ذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ، ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اور قیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15411) (ضعیف) (سند میں ”عمر بن راشد“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3690) // ضعيف الجامع الصغير (3240) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3596) إسناده ضعيف عمر بن راشد: ضعيف (تقدم: 2000) والحديث صحيح بشواهد دون قوله: ”يضع الذكر“ إلخ
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لان اقول: سبحان الله , والحمد لله , ولا إله إلا الله , والله اكبر احب إلي مما طلعت عليه الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ أَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ , وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر»”اللہ پاک ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے“، کہوں۔
(قدسي) حدثنا حدثنا ابو كريب، حدثنا عبد الله بن نمير، عن سعدان القبي، عن ابي مجاهد، عن ابي مدلة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا ترد دعوتهم: الصائم حتى يفطر، والإمام العادل، ودعوة المظلوم يرفعها الله فوق الغمام، ويفتح لها ابواب السماء، ويقول الرب: وعزتي لانصرنك ولو بعد حين ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وسعدان القبي هو سعدان بن بشر، وقد روى عنه عيسى بن يونس، وابو عاصم، وغير واحد من كبار اهل الحديث، وابو مجاهد هو سعد الطائي، وابو مدلة هو مولى ام المؤمنين عائشة، وإنما نعرفه بهذا الحديث، ويروى عنه هذا الحديث اتم من هذا واطول.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ سَعْدَانَ الْقُبِّيِّ، عَنْ أَبِي مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَسَعْدَانُ الْقبِّيُّ هُوَ سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَأَبُو عَاصِمٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَأَبُو مُجَاهِدٍ هُوَ سَعْدٌ الطَّائِيُّ، وَأَبُو مُدِلَّةَ هُوَ مَوْلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثُ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- سعدان قمی یہ سعدان بن بشر ہیں، ان سے عیسیٰ بن یونس، ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے ۳- اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں ۴- اور ابومدلہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 48 (1752) (تحفة الأشراف: 15457)، و مسند احمد (2/30 4- 305، 445، 477) (ضعیف) (”الإمام العادل“ کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ”المسافر“ کے لفظ سے صحیح ہے، سند میں ابو مدلہ مولی عائشہ“ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ”المسافر“ کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 1358، والصحیحة رقم: 596)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الأول بلفظ: ".... المسافر " مكان " الإمام العادل "، وفي رواية " الوالد "، ابن ماجة (1752)
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبد الله بن نمير، عن موسى بن عبيدة، عن محمد بن ثابت، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم انفعني بما علمتني، وعلمني ما ينفعني، وزدني علما، الحمد لله على كل حال، واعوذ بالله من حال اهل النار ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما الحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار»”اے اللہ! مجھے اس علم سے نفع دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے اور مجھے وہ علم سکھا جو مجھے فائدہ دے اور میرا علم زیادہ کر، ہر حال میں اللہ ہی کے لیے تعریف ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 23 (251)، والدعاء (3833) (تحفة الأشراف: 14356) (صحیح) ”الحمد للہ۔۔۔الخ) کا لفظ صحیح نہیں ہے، سند میں محمد بن ثابت مجہول راوی ہے، مگر پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی 462)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " والحمد لله ... "، ابن ماجة (251 و 3833)
قال الشيخ زبير على زئي: (3599) إسناده ضعيف / جه 251، 3833 موسي بن عبيدة: ضعيف (تقدم:1122) وحديث البخاري (5848) ومسلم (2337) يغني عنه
(قدسي) حدثنا حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، او عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لله ملائكة سياحين في الارض فضلا عن كتاب الناس، فإذا وجدوا اقواما يذكرون الله تنادوا: هلموا إلى بغيتكم، فيجيئون فيحفون بهم إلى السماء الدنيا، فيقول الله: على اي شيء تركتم عبادي يصنعون؟ فيقولون: تركناهم يحمدونك , ويمجدونك , ويذكرونك، قال: فيقول: فهل راوني؟ فيقولون: لا، قال: فيقول: فكيف لو راوني؟ قال: فيقولون: لو راوك لكانوا اشد تحميدا , واشد تمجيدا , واشد لك ذكرا، قال: فيقول: واي شيء يطلبون؟ قال: فيقولون: يطلبون الجنة، قال: فيقول: وهل راوها؟ قال: فيقولون: لا، قال: فيقول: فكيف لو راوها؟ قال: فيقولون: لو راوها كانوا لها اشد طلبا، واشد عليها حرصا، قال: فيقول: فمن اي شيء يتعوذون؟ قالوا: يتعوذون من النار، قال: فيقول: هل راوها؟ فيقولون: لا، فيقول: فكيف لو راوها؟ فيقولون: لو راوها كانوا منها اشد هربا , واشد منها خوفا , واشد منها تعوذا، قال: فيقول: فإني اشهدكم اني قد غفرت لهم، فيقولون: إن فيهم فلانا الخطاء لم يردهم إنما جاءهم لحاجة، فيقول: هم القوم لا يشقى لهم جليس ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن ابي هريرة من غير هذا الوجه.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ فُضُلًا عَنْ كُتَّابِ النَّاسِ، فَإِذَا وَجَدُوا أَقْوَامًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى بُغْيَتِكُمْ، فَيَجِيئُونَ فَيَحُفُّونَ بِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ اللَّهُ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تَرَكْتُمْ عِبَادِي يَصْنَعُونَ؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يَحْمَدُونَكَ , وَيُمَجِّدُونَكَ , وَيَذْكُرُونَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: فَهَلْ رَأَوْنِي؟ فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ لَكَانُوا أَشَدَّ تَحْمِيدًا , وَأَشَدَّ تَمْجِيدًا , وَأَشَدَّ لَكَ ذِكْرًا، قَالَ: فَيَقُولُ: وَأَيُّ شَيْءٍ يَطْلُبُونَ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَطْلُبُونَ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا لَهَا أَشَدَّ طَلَبًا، وَأَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَتَعَوَّذُونَ؟ قَالُوا: يَتَعَوَّذُونَ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْهَا؟ فَيَقُولُونَ: لَا، فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا مِنْهَا أَشَدَّ هَرَبًا , وَأَشَدَّ مِنْهَا خَوْفًا , وَأَشَدَّ مِنْهَا تَعَوُّذًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، فَيَقُولُونَ: إِنَّ فِيهِمْ فُلَانًا الْخَطَّاءَ لَمْ يُرِدْهُمْ إِنَّمَا جَاءَهُمْ لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُ: هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى لَهُمْ جَلِيسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ یا ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں: آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات، تو وہ لوگ آ جاتے ہیں، اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں، اللہ ان سے پوچھتا ہے: ”میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو؟“ وہ کہتے ہیں: ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں، وہ کہتا ہے: ”کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے (یا بن دیکھے ہوئے ہی میری عبادت و ذکر کئے جا رہے ہیں)“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اللہ کہتا ہے: ”اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت و کیفیت ہو گی؟“ وہ جواب دیتے ہیں، وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں، تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے، وہ پوچھتا ہے: ”وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں؟“ فرشتے کہتے ہیں: وہ لوگ جنت مانگتے ہیں، اللہ پوچھتا ہے ”کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے؟“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے: ”اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟“ وہ کہتے ہیں: ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی، وہ پھر پوچھتا ہے: ”وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں“، وہ کہتے ہیں: جہنم سے، وہ پوچھتا ہے: ”کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے؟“ وہ کہتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے: ”اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟“ وہ کہتے ہیں: اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے، زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے، پھر اللہ کہے گا ”میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کر دی ہے“، وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں خطاکار شخص بھی ہے، ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا، (اور بیٹھ گیا تھا) اللہ فرماتا ہے، ”یہ ایسے (معزز و مکرم) لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا (ہم نے اسے بھی بخش دیا)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4015، و12540)، و مسند احمد (2/251) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن هشام بن الغاز، عن مكحول، عن ابي هريرة، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة قال مكحول: فمن قال: لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه كشف عنه سبعين بابا من الضر ادناهن الفقر ". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بمتصل، مكحول لم يسمع من ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ قَالَ مَكْحُولٌ: فَمَنْ قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا مَنْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ كَشَفَ عَنْهُ سَبْعِينَ بَابًا مِنَ الضُّرِّ أَدْنَاهُنَّ الْفَقْرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، مَكْحُولٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَة.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے“۔ مکحول کہتے ہیں: جس نے کہا: «لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه» تو اللہ تعالیٰ اس سے ستر طرح کے ضرر و نقصان کو دور کر دیتا ہے، جن میں کمتر درجے کا ضرر فقر (و محتاجی) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس کی سند متصل نہیں ہے، مکحول نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14621) (صحیح) (سند میں مکحول اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لیے مکحول کا قول، سنداً ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، الصحیحة 105، 1528)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قول مكحول " فمن قال ... " فإنه مقطوع، الصحيحة (105 و 1528)
قال الشيخ زبير على زئي: (3601) إسناده ضعيف أبو خالد الأحمر عنعن (تقدم: 3349) والحديث المرفوع صحيح بالشواه . انظر صحيح ابن حبان (الموارد: 2339، سنده حسن) وغيره
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لكل نبي دعوة مستجابة، وإني اختبات دعوتي شفاعة لامتي، وهي نائلة إن شاء الله من مات منهم لا يشرك بالله شيئا ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے، اس دعا کا فائدہ ان شاءاللہ امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہو گا جس نے مرنے سے پہلے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ہر اس شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی جس نے کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہو گا مشرک خواہ غیر مسلموں کا ہو، یا نام نہاد مسلمانوں کا شرک کے مرتکب کو یہ شفاعت نصیب نہیں ہو گی، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مذہب وہی ہے جس کے قائل سلف صالحین ہیں، یعنی موحد گناہوں کے سبب ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا، گناہوں کی سزا بھگت کر آخری میں جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی، الا یہ کہ توبہ کر چکا ہو تو شروع ہی میں جنت میں چلا جائے گا، ان شاءاللہ۔
(قدسي) حدثنا حدثنا ابو كريب، حدثنا ابن نمير، وابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: " انا عند ظن عبدي بي، وانا معه حين يذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم، وإن اقترب إلي شبرا اقتربت منه ذراعا، وإن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا، وإن اتاني يمشي اتيته هرولة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ويروى عن الاعمش في تفسير هذا الحديث: من تقرب مني شبرا تقربت منه ذراعا يعني بالمغفرة والرحمة، وهكذا فسر بعض اهل العلم هذا الحديث، قالوا: إنما معناه يقول: إذا تقرب إلي العبد بطاعتي وما امرت اسرع إليه بمغفرتي ورحمتي.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنِ الْأَعْمَشِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا يَعْنِي بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ، وَهَكَذَا فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالُوا: إِنَّمَا مَعْنَاهُ يَقُولُ: إِذَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ الْعَبْدُ بِطَاعَتِي وَمَا أَمَرْتُ أُسْرِعُ إِلَيْهِ بِمَغْفِرَتِي وَرَحْمَتِي.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں ۱؎، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتا ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہوں، اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر کوئی میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کی تفسیر میں اعمش سے مروی ہے کہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ ”جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں“، اس سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی رحمت و مغفرت کا معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہوں، ۳- اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کر کے میری قربت حاصل کرنا چاہتا ہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 15 (7405)، و35 (7505)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 6 (2675)، سنن ابن ماجہ/الأدب 58 (3822) (تحفة الأشراف: 12505) (وراجع ماتقدم عند المؤلف في الزہد (برقم 2388) (صحیح)»
(قدسي) وروي عن سعيد بن جبير , انه قال في هذه الآية: فاذكروني اذكركم سورة البقرة آية 152 قال: اذكروني بطاعتي اذكركم بمغفرتي. حدثنا عبد بن حميد، قال: حدثنا الحسن بن موسى، وعمرو بن هاشم الرملي , عن ابن لهيعة، عن عطاء بن يسار، عن سعيد بن جبير بهذا.(قدسي) وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آية 152 قَالَ: اذْكُرُونِي بِطَاعَتِي أَذْكُرْكُمْ بِمَغْفِرَتِي. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَعَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الرَّمْلِيُّ , عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا.
سعید بن جبیر اس آیت: «فاذكروني أذكركم» کے بارے میں فرماتے ہیں: «اذكروني» سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: ”اگر مومن بندہ اپنے تئیں اللہ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا، میرے اوپر رحمت کرے، مجھے دین و دنیا میں بھلائی سے بہرہ ور کے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس حسن ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے، بعض شارحین کہتے ہیں: یہاں ”ظن“ گمان نہیں ”یقین“ کے معنی میں ہے، یعنی: بندہ جیسا اللہ سے یقین رکھتا ہے اللہ ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3822)
قال الشيخ زبير على زئي: (3603/ب) ضعيف حديث سعيد بن جبير: اذكروني بطاعتي: ضعيف، ابن لهيعة عنعن واختلط (تقدم:10) وباقي الحديث صحيح