(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن إسماعيل بن ابي فديك، حدثنا ابن ابي ذئب، عن ابي سعيد البراد، عن معاذ بن عبد الله بن خبيب، عن ابيه، قال: خرجنا في ليلة مطيرة، وظلمة شديدة، نطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي لنا، قال: فادركته، فقال: قل: فلم اقل شيئا، ثم قال: قل: فلم اقل شيئا، قال: قل، فقلت: ما اقول؟ قال: قل: " قل هو الله احد , والمعوذتين حين تمسي وتصبح ثلاث مرات تكفيك من كل شيء ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، من هذا الوجه وابو سعيد البراد هو اسيد بن ابي اسيد مدني.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْبَرَّادِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ، نَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا، قَالَ: فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ: قُلْ: فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ: قُلْ: فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: مَا أَقُولُ؟ قَالَ: قُلْ: " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ , وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو سَعِيدٍ الْبَرَّادُ هُوَ أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ مَدَنِيٌّ.
عبداللہ بن خبیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے نکلے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھا دیں، چنانچہ میں آپ کو پا گیا، آپ نے فرمایا: ”کہو (پڑھو)“، تو میں نے کچھ نہ کہا: ”کہو“ آپ نے پھر فرمایا، مگر میں نے کچھ نہ کہا، (کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا کہوں؟) آپ نے پھر فرمایا: ”کہو“، میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے فرمایا: «قل هو الله أحد» اور «المعوذتين»( «قل أعوذ برب الفلق»، «قل أعوذ برب الناس») صبح و شام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابوسعید براد: یہ اسید بن ابی اسید مدنی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن يزيد بن خمير الشامي، عن عبد الله بن بسر، قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابي، فقربنا إليه طعاما فاكل منه، ثم اتي بتمر فكان ياكل ويلقي النوى بإصبعيه جمع السبابة والوسطى، قال شعبة: وهو ظني فيه إن شاء الله، والقى النوى بين اصبعين ثم اتي بشراب فشربه، ثم ناوله الذي عن يمينه، قال: فقال ابي واخذ بلجام دابته: ادع لنا، فقال: " اللهم بارك لهم فيما رزقتهم , واغفر لهم , وارحمهم ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي من غير هذا الوجه عن عبد الله بن بسر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الشَّامِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي، فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُ وَيُلْقِي النَّوَى بِإِصْبَعَيْهِ جَمَعَ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى، قَالَ شُعْبَةُ: وَهُوَ ظَنِّي فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَلْقَى النَّوَى بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ، قَالَ: فَقَالَ أَبِي وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ: ادْعُ لَنَا، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ , وَاغْفِرْ لَهُمْ , وَارْحَمْهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ.
عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے باپ کے پاس آئے، ہم نے آپ کے کھانے کے لیے کچھ پیش کیا تو آپ نے اس میں سے کھایا، پھر آپ کے لیے کچھ کھجوریں لائی گئیں، تو آپ کھجوریں کھانے اور گھٹلی اپنی دونوں انگلیوں سبابہ اور وسطی (شہادت اور بیچ کی انگلی سے (دونوں کو ملا کر) پھینکتے جاتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: جو میں کہہ رہا ہوں وہ میرا گمان و خیال ہے، اللہ نے چاہا تو صحیح ہو گا، آپ دونوں انگلیوں کے بیچ میں گٹھلی رکھ کر پھینک دیتے تھے، پھر آپ کے سامنے پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ نے پی اور اپنے دائیں جانب ہاتھ والے کو تھما دیا (جب آپ چلنے لگے تو) آپ کی سواری کی لگام تھامے تھامے میرے باپ نے آپ سے عرض کیا، آپ ہمارے لیے دعا فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا: «اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم»”اے اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور انہیں بخش دے اور ان پر رحمت نازل فرما“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی یہ حدیث عبداللہ بن بسر سے آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حفص بن عمر الشني، حدثني ابي عمر بن مرة، قال: سمعت بلال بن يسار بن زيد مولى النبي صلى الله عليه وسلم، حدثني ابي، عن جدي، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من قال: استغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم , واتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحف ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الشَّنِّيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ يَسَارِ بْنِ زَيْدٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ , وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص کہے: «أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه»”میں مغفرت مانگتا ہوں اس بزرگ و برتر اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جو زندہ ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں“، تو اس کی مغفرت کر دی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (و فوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 361 (1517) (صحیح) (سند میں بلال اور یسار بن زید دونوں باپ اور بیٹے مجہول راوی ہیں، لیکن ابن مسعود وغیرہ کی احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، صحیح سنن أبی داود 1358، صحیح الترغیب والترہیب 1622، الصحیحة 2727)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 269)، صحيح أبي داود (1358)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا شعبة، عن ابي جعفر، عن عمارة بن خزيمة بن ثابت، عن عثمان بن حنيف، ان رجلا ضرير البصر اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله ان يعافيني، قال: " إن شئت دعوت وإن شئت صبرت فهو خير لك "، قال: فادعه، قال: فامره ان يتوضا فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: " اللهم إني اسالك واتوجه إليك بنبيك، محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث ابي جعفر وهو الخطمي , وعثمان بن حنيف هو اخو سهل بن حنيف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ: " إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ "، قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ، مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَهُوَ الْخَطْمِيٍّ , وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ هُوَ أَخُو سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
عثمان بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے“۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ”وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه»”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ۱؎“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے، ۲- اور ابوجعفر خطمی ہیں ۳- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء (جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہو سکتا، اسی لیے عمر رضی الله عنہ نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی، (آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس رضی الله عنہ سے دعا کرائی، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا إسحاق بن عيسى، قال: حدثني معن، حدثني معاوية بن صالح، عن ضمرة بن حبيب، قال: سمعت ابا امامة رضي الله عنه يقول: حدثني عمرو بن عبسة، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " اقرب ما يكون الرب من العبد في جوف الليل الآخر، فإن استطعت ان تكون ممن يذكر الله في تلك الساعة فكن ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
عمرو بن عنبسہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہو جاؤ (یعنی تہجد پڑھو)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(قدسي) حدثنا حدثنا ابو الوليد الدمشقي احمد بن عبد الرحمن بن بكار , حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا عفير بن معدان، انه سمع ابا دوس اليحصبي يحدث، عن ابن عائذ اليحصبي، عن عمارة بن زعكرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يقول: " إن عبدي كل عبدي الذي يذكرني وهو ملاق قرنه يعني عند القتال ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي، ولا نعرف لعمارة بن زعكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا هذا الحديث الواحد، ومعنى قوله: وهو ملاق قرنه إنما يعني عند القتال، يعني ان يذكر الله في تلك الساعة.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَكَّارٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا دَوْسٍ الْيَحْصُبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَائِذٍ الْيَحْصُبِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: " إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلَاقٍ قِرْنَهُ يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَهُوَ مُلَاقٍ قِرْنَهُ إِنَّمَا يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ، يَعْنِي أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ.
عمارہ بن زعکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرا بندہ کامل بندہ وہ ہے جو مجھے اس وقت یاد کرتا ہے جب وہ جنگ کے وقت اپنے مدمقابل (دشمن) کے سامنے کھڑا ہو رہا ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اس کی سند قوی نہیں ہے، اس ایک حدیث کے سوا ہم عمارہ بن زعکرہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور روایت نہیں جانتے، ۲- اللہ کے قول «وهو ملاق قرنه» کا معنی و مطلب یہ ہے کہ لڑائی و جنگ کے وقت، یعنی ایسے وقت اور ایسی گھڑی میں بھی وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10379) (ضعیف) (سند میں ”عفیر بن معدان“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3135) // ضعيف الجامع الصغير (1750) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3580) إسناده ضعيف عفير: ضعيف (تقدم: 1517)
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا وهب بن جرير، حدثني ابي، قال: سمعت منصور بن زاذان يحدث، عن ميمون بن ابي شبيب، عن قيس بن سعد بن عبادة، ان اباه دفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم يخدمه , قال: فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم وقد صليت فضربني برجله وقال: " الا ادلك على باب من ابواب الجنة؟ "، قلت: بلى، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَال: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ زَاذَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّ أَبَاهُ دَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْدُمُهُ , قَالَ: فَمَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّيْتُ فَضَرَبَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ؟ "، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
قیس بن سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ (سعد بن عبادہ) نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے کے لیے آپ کے حوالے کر دیا، وہ کہتے ہیں: میں نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، آپ نے اپنے پیر سے (مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) ایک ٹھوکر لگائی پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ نہ بتا دوں“، میں نے کہا: کیوں نہیں ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا: ”وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 130 (355) (تحفة الأشراف: 11097)، و مسند احمد (3/422) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1746)
قال الشيخ زبير على زئي: (3584) إسناده ضعيف / د 2632
(مرفوع) حدثنا موسى بن حزام، وعبد بن حميد، وغير واحد، قالوا: حدثنا محمد بن بشر , فقال: سمعت هانئ بن عثمان، عن امه حميضة بنت ياسر، عن جدتها يسيرة وكانت من المهاجرات، قالت: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عليكن بالتسبيح والتهليل والتقديس، واعقدن بالانامل فإنهن مسئولات مستنطقات، ولا تغفلن فتنسين الرحمة ". قال: هذا حديث إنما نعرفه من حديث هانئ بن عثمان، وقد رواه محمد بن ربيعة، عن هانئ بن عثمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، وغير واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , فَقَالَ: سَمِعْتُ هَانِئَ بْنَ عُثْمَانَ، عَنْ أُمِّهِ حُمَيْضَةَ بِنْتِ يَاسِرٍ، عَنْ جَدَّتِهَا يُسَيْرَةَ وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُنَّ بِالتَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّقْدِيسِ، وَاعْقِدْنَ بِالْأَنَامِلِ فَإِنَّهُنَّ مَسْئُولَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ، وَلَا تَغْفُلْنَ فَتَنْسَيْنَ الرَّحْمَةَ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ، وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ.
حمیضہ بنت یاسر اپنی دادی یسیرہ رضی الله عنہا سے روایت کرتی ہیں، یسیرہ ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”تمہارے لیے لازم اور ضروری ہے کہ تسبیح پڑھا کرو تہلیل اور تقدیس کیا کرو ۱؎ اور انگلیوں پر (تسبیحات وغیرہ کو) گنا کرو، کیونکہ ان سے (قیامت میں) پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کر دی جائے گی، اور تم لوگ غفلت نہ برتنا کہ (اللہ کی) رحمت کو بھول بیٹھو“۔
امام ترمذی کہتے: ہم اس حدیث کو صرف ہانی بن عثمان کی روایت سے جانتے ہیں اور محمد بن ربیعہ نے بھی ہانی بن عثمان سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1501) (تحفة الأشراف: 18301)، و مسند احمد (6/371) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: «تسبیح» «سبحان اللہ» کہنا، «تہلیل» «لا إله إلا الله» کہنا اور «تقدیس» «سبحان الملک القدوس» یا «سبوح قدوس ربنا ورب الملائکۃ والروح» کہنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (1345)، المشكاة (2316)، الضعيفة تحت الحديث (83)
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، اخبرني ابي، عن المثنى بن سعيد، عن قتادة، عن انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا غزا قال: " اللهم انت عضدي , وانت نصيري , وبك اقاتل ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، ومعنى قوله: عضدي يعني عوني.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: " اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي , وَأَنْتَ نَصِيرِي , وَبِكَ أُقَاتِلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: عَضُدِي يَعْنِي عَوْنِي.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کرتے (لڑتے) تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم أنت عضدي وأنت نصيري وبك أقاتل»”اے اللہ! تو میرا بازو ہے، تو ہی میرا مددگار ہے اور تیرے ہی سہارے میں لڑتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲- اور «عضدی» کے معنی ہیں تو میرا مددگار ہے۔