علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون»”اور تم اپنے رزق (کا شکریہ یہ ادا کرتے ہو کہ) تم (اللہ کی رزاقیت کی) تکذیب کرتے ہو“(الواقعہ: ۸۲)، کے متعلق فرمایا: ”تمہارا «شكر» یہ ہوتا ہے: تم کہتے ہو کہ یہ بارش فلاں فلاں نچھتر کے باعث اور فلاں فلاں ستاروں کی گردش کی بدولت ہوئی ہے۔ اس طرح تم جھوٹ بول کر حقیقت کو جھٹلاتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ہم اسے اسرائیل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے مرفوع نہیں جانتے، ۲- اس حدیث کو سفیان ثوری نے عبدالاعلی سے، عبدالاعلیٰ نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے، اور عبدالرحمٰن نے علی سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10173) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”عبد الاعلی بن عامر“ کو وہم ہو جایا کرتا تھا)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3295) إسناده ضعيف عبد الأعلي الثعلبي ضعيف (تقدم:2950) و حديث مسلم (73/127) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث الخزاعي المروزي، حدثنا وكيع، عن موسى بن عبيدة، عن يزيد بن ابان، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في قوله: " إنا انشاناهن إنشاء سورة الواقعة آية 35، قال: إن من المنشآت اللائي كن في الدنيا عجائز عمشا رمصا ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث موسى بن عبيدة، وموسى بن عبيدة، ويزيد بن ابان الرقاشي يضعفان في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي قَوْلِهِ: " إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً سورة الواقعة آية 35، قَالَ: إِنَّ مِنَ الْمُنْشَآتِ اللَّائِي كُنَّ فِي الدُّنْيَا عَجَائِزَ عُمْشًا رُمْصًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «إنا أنشأناهن إنشاء»”ہم انہیں نئی اٹھان اٹھائیں گے نئی اٹھان“(الواقعہ: ۸۲)، کے سلسلے میں فرمایا: ”ان نئی اٹھان والی عورتوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو دنیا میں بوڑھی تھیں، جن کی آنکھیں خراب ہو چکی ہوں اور ان سے پانی بہتا رہتا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1676) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”موسی بن عبیدہ“ اور ”یزید بن ابان وقاشی“ دونوں ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3296) إسناده ضعيف موسي بن عبيدة ضعيف ويزيد بن أبان ضعيفان (تقدم:1122،1398)
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا معاوية بن هشام، عن شيبان، عن ابي إسحاق، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قال ابو بكر رضي الله عنه: يا رسول الله، قد شبت، قال: " شيبتني هود، والواقعة، والمرسلات، وعم يتساءلون، وإذا الشمس كورت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث ابن عباس إلا من هذا الوجه، وروى علي بن صالح هذا الحديث، عن ابي إسحاق، عن ابي جحيفة نحو هذا، وروي عن ابي إسحاق، عن ابي ميسرة شيء من هذا مرسلا، وروى ابو بكر بن عياش، عن ابي إسحاق، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث شيبان، عن ابي إسحاق، ولم يذكر فيه عن ابن عباس، حدثنا بذلك هاشم بن الوليد الهروي، حدثنا ابو بكر بن عياش.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شِبْتَ، قَالَ: " شَيَّبَتْنِي هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ، وَالْمُرْسَلَاتُ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرُوِي عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ شَيْءٌ مِنْ هَذَا مُرْسَلًا، وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَاشِمُ بْنُ الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ تو بوڑھے ہو چلے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے «هود»، «الواقعة»، «المرسلات»، «عم يتساءلون» اور سورۃ «إذا الشمس کوّرت» نے بوڑھا کر دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- علی بن صالح نے یہ حدیث اسی طرح ابواسحاق سے، اور ابواسحاق نے ابوحجیفہ رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کی کچھ باتیں ابواسحاق ابومیسرہ سے مرسلاً روایت کی گئی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے ابواسحاق کے واسطہ سے، ابواسحاق نے عکرمہ سے، اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شیبان کی اس حدیث جیسی روایت کی ہے جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس روایت میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ان میں قیامت کی خبریں اور عذاب کی آیتیں ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (955)
قال الشيخ زبير على زئي: (3297) إسناده ضعيف أبو إسحاق عنعن (تقدم:107) وللحديث شواھد ضعيفة وروي الطبراني (المعجم الكبير 287،286/17 ح790) بسند حسن عب عقبة بن عامر رضى الله عنه أن رجلاً قال: يارسول الله! شبت،قال ”شيبتني ھود وأخواتھا“ وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، وغير واحد , المعنى واحد، قالوا: حدثنا يونس بن محمد، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن، عن قتادة، قال: حدثنا الحسن، عن ابي هريرة، قال: بينما نبي الله صلى الله عليه وسلم جالس واصحابه إذ اتى عليهم سحاب، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون ما هذا؟ " فقالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " هذا العنان، هذه روايا الارض يسوقه الله تبارك وتعالى إلى قوم لا يشكرونه ولا يدعونه "، قال: " هل تدرون ما فوقكم؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها الرقيع سقف محفوظ وموج مكفوف، ثم قال: " هل تدرون كم بينكم وبينها؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " بينكم وبينها مسيرة خمس مائة سنة "، ثم قال: " هل تدرون ما فوق ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن فوق ذلك سماءين ما بينهما مسيرة خمس مائة سنة، حتى عد سبع سماوات ما بين كل سماءين كما بين السماء والارض، ثم قال: " هل تدرون ما فوق ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد ما بين السماءين "، ثم قال: " هل تدرون ما الذي تحتكم؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها الارض "، ثم قال: " هل تدرون ما الذي تحت ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن تحتها الارض الاخرى بينهما مسيرة خمس مائة سنة، حتى عد سبع ارضين بين كل ارضين مسيرة خمس مائة سنة "، ثم قال: " والذي نفس محمد بيده لو انكم دليتم رجلا بحبل إلى الارض السفلى لهبط على الله "، ثم قرا: هو الاول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم سورة الحديد آية 3 ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، قال: ويروى عن ايوب، ويونس بن عبيد، وعلي بن زيد، قالوا: لم يسمع الحسن من ابي هريرة، وفسر بعض اهل العلم هذا الحديث، فقالوا: إنما هبط على علم الله وقدرته وسلطانه، علم الله وقدرته وسلطانه في كل مكان، وهو على العرش كما وصف في كتابه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , المعنى واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟ " فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " هَذَا الْعَنَانُ، هَذِهِ رَوَايَا الْأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَهُ وَلَا يَدْعُونَهُ "، قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشَ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءَيْنِ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَكُمْ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا الْأَرْضُ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ تَحْتَهَا الأَرْضَ الأُخْرَى بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ "، ثُمَّ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ رَجُلًا بِحَبْلٍ إِلَى الْأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ "، ثُمَّ قَرَأَ: هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورة الحديد آية 3 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعِ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، عِلْمُ اللَّهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، ان پر ایک بدلی آئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے و کنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جا رہا ہے جو اس کی شکر گزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہ آسمان «رقیع» ہے، ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کر دی گئی ہے، ایک ایسی (لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے“، پھر آپ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال مسافت کی دوری ہے“، پھر آپ نے پوچھا: ”کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا: ”اس کے اوپر دو آسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سو سال کی مسافت ہے“۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا: ”اور اس کے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، اور اس کے رسول آپ نے فرمایا: ”اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے“، آپ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا: ”یہ زمین ہے“، آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟“، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اس کے نیچے دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری ہے“، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری بتائی، پھر آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی، پھر آپ نے آیت «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم»”وہی اول و آخر ہے وہی ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے“(الحدید: ۳)، پڑھی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے، اور اللہ اور اس کی قدرت و حکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12253) (ضعیف) (ابوہریرہ رضی الله عنہ سے حسن بصری کا سماع نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف ظلال الجنة (578) // ضعيف الجامع الصغير (6094)، المشكاة (5735) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3298) إسناده ضعيف الحسن البصري عنعن (تقدم:21) ولبعض الحديث شواھد
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، والحسن بن علي الحلواني المعنى واحد، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن محمد بن عمرو بن عطاء، عن سليمان بن يسار، عن سلمة بن صخر الانصاري، قال: كنت رجلا قد اوتيت من جماع النساء ما لم يؤت غيري، فلما دخل رمضان تظاهرت من امراتي حتى ينسلخ رمضان فرقا من ان اصيب منها في ليلتي، فاتتابع في ذلك إلى ان يدركني النهار وانا لا اقدر ان انزع، فبينما هي تخدمني ذات ليلة إذ تكشف لي منها شيء فوثبت عليها، فلما اصبحت غدوت على قومي فاخبرتهم خبري، فقلت: انطلقوا معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره بامري، فقالوا: لا والله لا نفعل، نتخوف ان ينزل فينا قرآن او يقول فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالة يبقى علينا عارها، ولكن اذهب انت فاصنع ما بدا لك، قال: فخرجت فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته خبري، فقال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، قال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، قال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، وهانا ذا فامض في حكم الله، فإني صابر لذلك، قال: " اعتق رقبة "، قال: فضربت صفحة عنقي بيدي، فقلت: لا والذي بعثك بالحق لا املك غيرها، قال: " صم شهرين "، قلت: يا رسول الله، وهل اصابني ما اصابني إلا في الصيام، قال: " فاطعم ستين مسكينا "، قلت: والذي بعثك بالحق لقد بتنا ليلتنا هذه وحشى ما لنا عشاء، قال: " اذهب إلى صاحب صدقة بني زريق، فقل له فليدفعها إليك فاطعم عنك منها وسقا ستين مسكينا، ثم استعن بسائره عليك وعلى عيالك "، قال: فرجعت إلى قومي، فقلت: وجدت عندكم الضيق وسوء الراي، ووجدت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم السعة والبركة، امر لي بصدقتكم، فادفعوها إلي فدفعوها إلي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، قال محمد: سليمان بن يسار لم يسمع عندي من سلمة بن صخر، قال: ويقال سلمة بن صخر سلمان بن صخر، وفي الباب، عن خولة بنت ثعلبة وهي امراة اوس بن الصامت.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا فِي لَيْلَتِي، فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ يُدْرِكَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرَهُ بِأَمْرِي، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ، نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي، فَقَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ، فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِكَ، قَالَ: " أَعْتِقْ رَقَبَةً "، قَالَ: فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي، فَقُلْتُ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَمْلِكُ غَيْرَهَا، قَالَ: " صُمْ شَهْرَيْنِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ، قَالَ: " فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا "، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَى مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ: " اذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَقُلْ لَهُ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا، ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْكَ وَعَلَى عِيَالِكَ "، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ، أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ، فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ: وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ.
سلمہ بن صخر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت و قوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کو بھی نہ ملی ہو گی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کر بیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہو جائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہو پاؤں، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کر لیا، پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑ گئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کر دوں، ان لوگوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم نہ جائیں گے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہو جائے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا: ”تم نے یہ کام کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”تم نے ایسا کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی) پوچھا: ”تو نے یہ بات کی ہے“، میں نے کہا: جی ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پر اللہ کا حکم جاری و نافذ فرمائیے، میں اپنی اس بات پر ثابت و قائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو“، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا: ”پھر دو مہینے کے روزے رکھو“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی و مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی روزے ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا: ”تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو“، میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کا بھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا: ”بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اور اس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طور پر کھلا دو اور باقی جو کچھ بچے وہ اپنے اوپر اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا، میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی، بدخیالی اور بری رائے و تجویز پائی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو، چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: سلیمان بن یسار نے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے، سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخر بھی کہتے ہیں، ۳- اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے، اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں (رضی الله عنہما)۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1198 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: میں نے کہہ دیا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے۔ تاکہ رمضان بھر تو جماع سے بچا رہ سکوں، اور حالت صوم میں جماع کی نوبت نہ آنے پائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2062)
قال الشيخ زبير على زئي: (3299) إسناده ضعيف / د 2213، جه 2062
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا عبيد الله الاشجعي، عن الثوري، عن عثمان بن المغيرة الثقفي، عن سالم بن ابي الجعد، عن علي بن علقمة الانماري، عن علي بن ابي طالب، قال: لما نزلت يايها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة سورة المجادلة آية 12 قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " ما ترى دينارا؟ " قلت: لا يطيقونه، قال: " فنصف دينار؟ " قلت: لا يطيقونه، قال: " فكم؟ " قلت: شعيرة، قال: " إنك لزهيد "، قال: فنزلت: ءاشفقتم ان تقدموا بين يدي نجواكم صدقات سورة المجادلة آية 13 الآية، قال: " فبي خفف الله عن هذه الامة ". قال: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه، ومعنى قوله شعيرة: يعني وزن شعيرة من ذهب، وابو الجعد اسمه رافع.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ الْأَنْمَارِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً سورة المجادلة آية 12 قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَرَى دِينَارًا؟ " قُلْتُ: لَا يُطِيقُونَهُ، قَالَ: " فَنِصْفُ دِينَارٍ؟ " قُلْتُ: لَا يُطِيقُونَهُ، قَالَ: " فَكَمْ؟ " قُلْتُ: شَعِيرَةٌ، قَالَ: " إِنَّكَ لَزَهِيدٌ "، قَالَ: فَنَزَلَتْ: ءَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ سورة المجادلة آية 13 الْآيَةَ، قَالَ: " فَبِي خَفَّفَ اللَّهُ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ شَعِيرَةٌ: يَعْنِي وَزْنَ شَعِيرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَبُو الْجَعْدِ اسْمُهُ رَافِعٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة»”اے ایمان والو! جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو“(المجادلہ: ۱۲)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کر دوں؟“ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: ”تو کیا آدھا دینار مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے“، آپ نے فرمایا: ”پھر کتنا کر دوں؟“ میں نے کہا: ایک جو کر دیں، آپ نے فرمایا: ”تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے“، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أأشفقتم أن تقدموا بين يدي نجواكم صدقات»”کیا تم اس حکم سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیا کرو“(المجادلہ: ۱۳)، علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ نے میری وجہ سے فضل فرما کر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرما دی (یعنی اس حکم کو منسوخ کر دیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- علی رضی الله عنہ کے قول «شعيرة» سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10249) (ضعیف الإسناد) (سند میں علی بن علقمہ لین الحدیث راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3300) إسناده ضعيف في سماع على بن علقمة من على رضى الله عنه نظر، والثوري عنعن (تقدم:746) وللحديث شاھد ضعيف عند أحمد (185/1)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يونس، عن شيبان، عن قتادة، حدثنا انس بن مالك، ان يهوديا اتى على النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه، فقال: السام عليكم، فرد عليه القوم، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون ما قال هذا؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، سلم يا نبي الله، قال: " لا، ولكنه قال كذا وكذا، ردوه علي "، فردوه، قال: قلت: السام عليكم، قال: نعم، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " عند ذلك إذا سلم عليكم احد من اهل الكتاب، فقولوا: عليك، قال: عليك ما قلت، قال: وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله سورة المجادلة آية 8 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ هَذَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، سَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا، رُدُّوهُ عَلَيَّ "، فَرَدُّوهُ، قَالَ: قُلْتَ: السَّامُّ عَلَيْكُمْ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عِنْدَ ذَلِكَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقُولُوا: عَلَيْكَ، قَالَ: عَلَيْكَ مَا قُلْتَ، قَالَ: وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ سورة المجادلة آية 8 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس ابن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس آ کر کہا: «السام عليكم»(تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے «سام» کا جواب دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، اے اللہ کے نبی! اس نے تو سلام کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے، تم لوگ اس (یہودی) کو لوٹا کر میرے پاس لاؤ“، لوگ اس کو لوٹا کر لائے، آپ نے اس یہودی سے پوچھا: تو نے «السام عليكم» کہا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایا دیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں «عليك ما قلت»(جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله»”یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تو وہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ہے“(المجادلہ: ۸)۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: " حرق رسول الله صلى الله عليه وسلم نخل بني النضير، وقطع وهي البويرة، فانزل الله: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين سورة الحشر آية 5 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَّعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين»”جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے“(الحشر: ۵)، نازل فرمائی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ غزوہ بنو نضیر کا واقعہ ہے، جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے بعض کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دیکھو محمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں، بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حفص بن غياث، حدثنا حبيب بن ابي عمرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قول الله عز وجل: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها سورة الحشر آية 5، قال: اللينة: النخلة وليخزي الفاسقين سورة الحشر آية 5، قال: استنزلوهم من حصونهم، قال: وامروا بقطع النخل، فحك في صدورهم، فقال المسلمون: قد قطعنا بعضا وتركنا بعضا، فلنسالن رسول الله صلى الله عليه وسلم هل لنا فيما قطعنا من اجر، وهل علينا فيما تركنا من وزر؟ فانزل الله تعالى: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها سورة الحشر آية 5 الآية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا سورة الحشر آية 5، قَالَ: اللِّينَةُ: النَّخْلَةُ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5، قَالَ: اسْتَنْزَلُوهُمْ مِنْ حُصُونِهِمْ، قَالَ: وَأُمِرُوا بِقَطْعِ النَّخْلِ، فَحَكَّ فِي صُدُورِهِمْ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: قَدْ قَطَعْنَا بَعْضًا وَتَرَكْنَا بَعْضًا، فَلَنَسْأَلَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَنَا فِيمَا قَطَعْنَا مِنْ أَجْرٍ، وَهَلْ عَلَيْنَا فِيمَا تَرَكْنَا مِنْ وِزْرٍ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا سورة الحشر آية 5 الْآيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها» کی تفسیر میں فرماتے ہیں: «لينة» سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور «وليخزي الفاسقين»(تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے) کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور (مسلمانوں کو یہود کے) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیا گیا، تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، مسلمانوں نے کہا: ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑ دیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر و ثواب ملے گا، اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہو گا؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها»”تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے“۔
(مرفوع) وروى بعضهم هذا الحديث، عن حفص بن غياث، عن حبيب بن ابي عمرة، عن سعيد بن جبير مرسلا، ولم يذكر فيه عن ابن عباس، حدثني بذلك عبد الله بن عبد الرحمن، حدثنا هارون بن معاوية، عن حفص بن غياث، عن حبيب بن ابي عمرة، عن سعيد بن جبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا. قال ابو عيسى: سمع مني محمد بن إسماعيل هذا الحديث.(مرفوع) وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل هَذَا الْحَدِيثَ.
بعض اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «حفص بن غياث عن حبيب بن أبي عمرة عن سعيد بن جبير» مرسلاً روایت کی ہے، اور اس کی سند میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔