(مرفوع) حدثنا يوسف بن حماد البصري، حدثنا عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كتب قبل موته إلى كسرى، وإلى قيصر، وإلى النجاشي، وإلى كل جبار يدعوهم إلى الله، وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه وسلم , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَتَبَ قَبْلَ مَوْتِهِ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ و قیصر، نجاشی اور سارے سرکش و متکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے۔ اس نجاشی سے وہ نجاشی (بادشاہ حبش اصحمہ) مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 27 (1774) (تحفة الأشراف: 1179)، و مسند احمد (3/336) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا سويد بن نضر، انبانا عبد الله بن المبارك، انبانا يونس، عن الزهري، اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، انه اخبره، ان ابا سفيان بن حرب اخبره، ان هرقل ارسل إليه في نفر من قريش وكانوا تجارا بالشام، فاتوه فذكر الحديث، قال: ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرئ فإذا فيه " بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم، السلام على من اتبع الهدى اما بعد " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو سفيان اسمه: صخر بن حرب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنُ نَضْرٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ، فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ: صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوسفیان بن حرب رضی الله عنہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلا بھیجا، تو وہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا۔ پھر خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا «بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام على من اتبع الهدى أمابعد»”میں شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان (بڑا مہربان) اور رحیم (نہایت رحم کرنے والا) ہے۔ یہ خط محمد کی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجا جا رہا ہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد: حمد و نعت کے بعد … الخ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوسفیان کا نام صخر بن حرب رضی الله عنہ تھا۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: لما اراد نبي الله صلى الله عليه وسلم ان يكتب إلى العجم قيل له: " إن العجم لا يقبلون إلا كتابا عليه خاتم فاصطنع خاتما، قال: فكاني انظر إلى بياضه في كفه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا أَرَادَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الْعَجَمِ قِيلَ لَهُ: " إِنَّ الْعَجَمَ لَا يَقْبَلُونَ إِلَّا كِتَابًا عَلَيْهِ خَاتَمٌ فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي كَفِّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عجمی (بادشاہوں) کو خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ عجمی بغیر مہر لگا ہوا خط قبول نہیں کرتے چنانچہ آپ نے (مہر کے لیے) ایک انگوٹھی بنوائی، تو ان میں آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا سليمان بن المغيرة، حدثنا ثابت البناني، حدثنا ابن ابي ليلى، عن المقداد بن الاسود، قال: اقبلت انا وصاحبان لي قد ذهبت اسماعنا وابصارنا من الجهد، فجعلنا نعرض انفسنا على اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فليس احد يقبلنا، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم فاتى بنا اهله فإذا ثلاثة اعنز، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " احتلبوا هذا اللبن بيننا "، فكنا نحتلبه فيشرب كل إنسان نصيبه، ونرفع لرسول الله صلى الله عليه وسلم نصيبه، فيجيء رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل " فيسلم تسليما لا يوقظ النائم، ويسمع اليقظان، ثم ياتي المسجد فيصلي ثم ياتي شرابه فيشربه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى بِنَا أَهْلَهُ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا "، فَكُنَّا نَحْتَلِبُهُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، فَيَجِيءُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ " فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ النَّائِمَ، وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مقداد بن اسود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست (مدینہ) آئے، فقر و فاقہ اور جہد و مشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہو گئی تھی ۱؎ اور ہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا ۲؎، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے، اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہو“، تو ہم دوہتے اور ہر شخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے ۳؎، پھر آپ مسجد آتے نماز تہجد پڑھتے پھر جا کر اپنے حصے کا دودھ پیتے۔
۲؎: وہ سوچتے یہ تو خود ہی مر رہے ہیں یہ کیا کام کریں گے۔ اور وہ ہمیں کام نہ دیتے۔
۳؎: نہ آواز بھاری، بلند اور کرخت ہوتی کہ سونے والا چونک کر اٹھ بیٹھے اور نہ ہی اتنی باریک، ہلکی اور پست کہ جاگنے والا بھی نہ سن سکے۔ بلکہ آواز درمیانی ہوتی۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سلام کیا جب آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا خالد الحذاء، عن ابي تميمة الهجيمي، عن رجل من قومه , قال: طلبت النبي صلى الله عليه وسلم فلم اقدر عليه، فجلست فإذا نفر هو فيهم ولا اعرفه وهو يصلح بينهم، فلما فرغ قام معه بعضهم فقالوا: يا رسول الله، فلما رايت ذلك , قلت: عليك السلام يا رسول الله، عليك السلام يا رسول الله، عليك السلام يا رسول الله، قال: " إن عليك السلام تحية الميت، إن عليك السلام تحية الميت، ثلاثا " ثم اقبل علي، فقال: " إذا لقي الرجل اخاه المسلم فليقل السلام عليكم ورحمة الله "، ثم رد علي النبي صلى الله عليه وسلم قال: وعليك ورحمة الله وعليك ورحمة الله وعليك ورحمة الله " , قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث ابو غفار، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي جري جابر بن سليم الهجيمي، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث، وابو تميمة اسمه: طريف بن مجالد.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ , قَالَ: طَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ، فَجَلَسْتُ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلَا أَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ , قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، ثَلَاثًا " ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: " إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ "، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو غِفَارٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ: طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ.
جابر بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھا رہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ میں آپ سے واقف نہ تھا، آپ ان لوگوں میں صلح صفائی کرا رہے تھے، جب آپ (اس کام سے) فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تو میں نے کہا: ” «علیک السلام یا رسول اللہ» !“(آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول) اور ایسا میں نے تین بار کہا، آپ نے فرمایا: ” «علیک السلام» میت کا سلام ہے“۱؎، آپ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کہے «السلام علیکم ورحمة اللہ» پھر آپ نے میرے سلام کا جواب اس طرح لوٹایا، فرمایا: «وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ»(تین بار)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوغفار نے یہ حدیث بسند «ابو تمیمہ الہجیمی عن ابی جری جابر بن سلیم الہجیمی» سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کر دی۔ ابو تمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں «علیک السلام» کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے «السلام علیکم» ہی سلام ہے، چنانچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين» ۔
جابر بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر آپ سے عرض کیا: «علیک السلام» آپ پر سلامتی ہو تو آپ نے فرمایا: «علیک السلام» مت کہو بلکہ «السلام علیک» کہو اور آگے پورا لمبا قصہ بیان کیا۔
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ابي واقد الليثي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في المسجد والناس معه، إذ اقبل ثلاثة نفر فاقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذهب واحد، فلما وقفا على رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما، فاما احدهما فراى فرجة في الحلقة فجلس فيها، واما الآخر فجلس خلفهم، واما الآخر فادبر ذاهبا، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم عن النفر الثلاثة؟ اما احدهم فاوى إلى الله فاواه الله، واما الآخر فاستحيا فاستحيا الله منه، واما الآخر فاعرض فاعرض الله عنه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو واقد الليثي اسمه: الحارث بن عوف، وابو مرة مولى ام هانئ بنت ابي طالب واسمه: يزيد ويقال: مولى عقيل بن ابي طالب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ، إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَهَبَ وَاحِدٌ، فَلَمَّا وَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَّمَا، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ؟ أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَأَوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ، وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُهُ: يَزِيدُ وَيُقَالُ: مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ آئے، اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر رکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں (گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلا ہی گیا تھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہا تیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا، چنانچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیر لیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابو مرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام یزید ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔