مقداد بن اسود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست
(مدینہ) آئے، فقر و فاقہ اور جہد و مشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہو گئی تھی
۱؎ اور ہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں، ہم نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا
۲؎، پھر ہم نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے، اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا:
”ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہو
“، تو ہم دوہتے اور ہر شخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے، پھر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے
۳؎، پھر آپ مسجد آتے نماز تہجد پڑھتے پھر جا کر اپنے حصے کا دودھ پیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2719
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ہم اونچا سننے لگے تھے۔
2؎:
وہ سوچتے یہ تو خود ہی مر رہے ہیں یہ کیا کام کریں گے۔
اور وہ ہمیں کام نہ دیتے۔
3؎:
نہ آواز بھاری،
بلند اور کرخت ہوتی کہ سونے والا چونک کر اٹھ بیٹھے اور نہ ہی اتنی باریک،
ہلکی اور پست کہ جاگنے والا بھی نہ سن سکے۔
بلکہ آواز درمیانی ہوتی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2719