(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن نيزك البغدادي، حدثنا محمد بن بكار الدمشقي، حدثنا سعيد بن بشير، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لكل نبي حوضا، وإنهم يتباهون ايهم اكثر واردة، وإني ارجو ان اكون اكثرهم واردة " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وقد روى الاشعث بن عبد الملك هذا الحديث، عن الحسن، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن سمرة وهو اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى الْأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَمُرَةَ وَهُوَ أَصَحُّ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہو گا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر (اللہ کے فضل سے) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اشعث بن عبدالملک نے اس حدیث کو حسن بصری کے واسطے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں سمرہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4603) (صحیح) (سند میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: 1589)»
قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج الطحاية (197)، المشكاة (5594)، الصحيحة (1589)
قال الشيخ زبير على زئي: (2443) إسناده ضعيف سعيد بن بشير: ضعيف (د 2580) وللحديث شواهد ضعيفة
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا يحيى بن صالح، حدثنا محمد بن المهاجر، عن العباس، عن ابي سلام الحبشي، قال: بعث إلي عمر بن عبد العزيز، فحملت على البريد , قال: فلما دخل عليه , قال: يا امير المؤمنين لقد شق على مركبي البريد، فقال: يا ابا سلام ما اردت ان اشق عليك ولكن بلغني عنك حديث تحدثه , عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الحوض فاحببت ان تشافهني به، قال ابو سلام: حدثني ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " حوضي من عدن إلى عمان البلقاء، ماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل، واكاويبه عدد نجوم السماء، من شرب منه شربة لم يظما بعدها ابدا، اول الناس ورودا عليه فقراء المهاجرين الشعث رءوسا الدنس ثيابا الذين لا ينكحون المتنعمات ولا تفتح لهم السدد "، قال عمر: لكني نكحت المتنعمات وفتح لي السدد، ونكحت فاطمة بنت عبد الملك لا جرم اني لا اغسل راسي حتى يشعث ولا اغسل ثوبي الذي يلي جسدي حتى يتسخ " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه وقد روي هذا الحديث عن معدان بن ابي طلحة، عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وابو سلام الحبشي اسمه: ممطور وهو شامي ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنِ الْعَبَّاسِ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الْحَبَشِيِّ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَحُمِلْتُ عَلَى الْبَرِيدِ , قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ , قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ شَقَّ عَلَى مَرْكَبِي الْبَرِيدُ، فَقَالَ: يَا أَبَا سَلَّامٍ مَا أَرَدْتُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ وَلَكِنْ بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ تُحَدِّثُهُ , عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَوْضِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ أَبُو سَلَّامٍ: حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ "، قَالَ عُمَرُ: لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ، وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ وَلَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو سَلَّامٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُهُ: مَمْطُورٌ وَهُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ.
ابو سلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا، چنانچہ میں ڈاک سواری خچر پر سوار ہو کر آپ کے پاس پہنچا، میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا: ابو سلام! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان رضی الله عنہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو، چنانچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں، ابو سلام نے کہا: ثوبان رضی الله عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اردن والے عمان تک کا فاصلہ ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سر دھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جو ناز و نعم عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لیے جاہ و منزلت کے دروازے کھولے جاتے“۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: لیکن میں نے تو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ و منزلت کے دروازے بھی کھولے گئے، میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سر کو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہو جائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہو جائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے «عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ۳- ابو سلام حبشی کا نام ممطور ہے، یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 36 (4303) (تحفة الأشراف: 2129) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر اس کا مرفوع حصہ صحیح ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: 1082)»
قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه، ابن ماجة (4303) // صحيح سنن ابن ماجة برقم (3472)، ضعيف سنن ابن ماجة برقم (937)، الصحيحة (1082)، السنة لابن أبي عاصم (707 و 708) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2444) إسناده ضعيف / جه 4303 سنده منقطع، العباس بن سالم لم يسمعه من أبى سلام (انظر سنن ابن ماجه: 4303) وأحاديث مسلم (2301) وابن حبان (الموارد: 2601) وغيرهما تغني عنه
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عبد الصمد العمي عبد العزيز بن عبد الصمد، حدثنا ابو عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، قال: قلت: يا رسول الله , ما آنية الحوض؟ قال: " والذي نفسي بيده لآنيته اكثر من عدد نجوم السماء وكواكبها في ليلة مظلمة مصحية من آنية الجنة، من شرب منها شربة لم يظما آخر ما عليه، عرضه مثل طوله ما بين عمان إلى ايلة، ماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وفي الباب عن حذيفة بن اليمان، وعبد الله بن عمرو، وابي برزة الاسلمي، وابن عمر، وحارثة بن وهب، والمستورد بن شداد، وروي عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " حوضي كما بين الكوفة إلى الحجر الاسود ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ؟ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ مُصْحِيَةٍ مِنْ آنِيَةِ الْجَنَّةِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهَا شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ، عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ مَا بَيْنَ عُمَانَ إِلَى أَيْلَةَ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وفي الباب عن حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَحَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، وَرُوِي عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " حَوْضِي كَمَا بَيْنَ الْكُوفَةِ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً اس کے برتن تاروں سے بھی زیادہ ہیں اس تاریک رات میں جس میں آسمان سے بادل چھٹ گیا ہو، اور اس کے پیالے جنت کے برتنوں میں سے ہوں گے، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے، اس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا عمان سے ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ بن یمان، عبداللہ بن عمرو، ابوبرزہ اسلمی، ابن عمر، حارثہ بن وہب اور مستورد بن شداد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے حوض کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کوفہ سے حجر اسود تک کا فاصلہ ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو حصين عبد الله بن احمد بن يونس كوفي , حدثنا عبثر بن القاسم، حدثنا حصين هو ابن عبد الرحمن، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: " لما اسري بالنبي صلى الله عليه وسلم جعل يمر بالنبي والنبيين ومعهم القوم والنبي والنبيين ومعهم الرهط والنبي والنبيين وليس معهم احد حتى مر بسواد عظيم، فقلت: من هذا؟ قيل: موسى وقومه، ولكن ارفع راسك فانظر، قال: فإذا سواد عظيم قد سد الافق من ذا الجانب ومن ذا الجانب، فقيل: هؤلاء امتك وسوى هؤلاء من امتك سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب فدخل، ولم يسالوه ولم يفسر لهم، فقالوا: نحن هم، وقال قائلون: هم ابناؤنا الذين ولدوا على الفطرة والإسلام، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هم الذين لا يكتوون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة بن محصن فقال: انا منهم يا رسول الله؟ قال: نعم، ثم قام آخر فقال: انا منهم؟ فقال: سبقك بها عكاشة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَهُمْ أَحَدٌ حَتَّى مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: مُوسَى وَقَوْمُهُ، وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ، قَالَ: فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ، فَقِيلَ: هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَسِوَى هَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَدَخَلَ، وَلَمْ يَسْأَلُوهُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْنُ هُمْ، وَقَالَ قَائِلُونَ: هُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالْإِسْلَامِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ؟ فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سر کو بلند کیجئے اور دیکھئیے: تو یکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اور نہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیر بیان کی، چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت اسلام پر پیدا ہوئیں۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے اور فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں، وہ صرف اپنے رب پر توکل و اعتماد کرتے ہیں“، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا: ”عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کر لی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 31 (3410)، والطب 17 (5705)، و 42 (5752)، والرقاق 21 (6472)، و50 (6541)، صحیح مسلم/الإیمان 94 (220) (تحفة الأشراف: 5493)، و مسند احمد (1/271) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد، بھروسہ اور توکل کرتے ہیں، جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پر اعتماد و توکل کی اعلی مثال ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع، حدثنا زياد بن الربيع، حدثنا ابو عمران الجوني، عن انس بن مالك، قال: ما اعرف شيئا مما كنا عليه على عهد النبي صلى الله عليه وسلم , فقلت: اين الصلاة؟ قال: " اولم تصنعوا في صلاتكم ما قد علمتم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، من حديث ابي عمران الجوني، وقد روي من غير وجه عن انس.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كُنَّا عَلَيْهِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: أَيْنَ الصَّلَاةُ؟ قَالَ: " أَوَلَمْ تَصْنَعُوا فِي صَلَاتِكُمْ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں وہ چیزیں نہیں دیکھتا جن پر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کرتے تھے، راوی حدیث ابوعمران جونی نے کہا: کیا آپ نماز نہیں دیکھتے؟ انس رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم لوگوں نے نماز میں وہ سب نہیں کیا جو تم جانتے ہو؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوعمران جونی کی روایت سے غریب حسن ہے، ۲- یہ حدیث انس کے واسطے سے اس کے علاوہ اور کئی سندوں سے مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى الازدي البصري، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا هاشم وهو ابن سعيد الكوفي، حدثني زيد الخثعمي، عن اسماء بنت عميس الخثعمية، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " بئس العبد عبد تخيل، واختال ونسي الكبير المتعال، بئس العبد عبد تجبر واعتدى ونسي الجبار الاعلى، بئس العبد عبد سها ولها ونسي المقابر والبلى، بئس العبد عبد عتا وطغى ونسي المبتدا والمنتهى، بئس العبد عبد يختل الدنيا بالدين، بئس العبد عبد يختل الدين بالشبهات، بئس العبد عبد طمع يقوده، بئس العبد عبد هوى يضله، بئس العبد عبد رغب يذله " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنِي زَيْدٌ الْخَثْعَمِيُّ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ، وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”برا ہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ و برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو مظلوموں پر قہر ڈھائے اور ظلم و زیادتی کرے اور اللہ جبار برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو لہو و لعب میں مشغول ہو اور قبروں اور ہڈیوں کے سڑ گل جانے کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اور موت کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے، اور برا ہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے، اور برا ہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے، اور برا ہے وہ بندہ جسے اس کا ہوائے نفسانی گمراہ کر دے اور برا ہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل و رسوا کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15755) (ضعیف) (سند میں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5115 / التحقيق الثاني)، الضعيفة (2026)، الظلال (9 و 10) // ضعيف الجامع الصغير (2350) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2448) إسناده ضعيف زيد الخثعمي: مجهول وتلميذه هاشم بن سعيد: ضعيف (تق: 2147،7254)
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المؤدب، حدثنا عمار بن محمد ابن اخت سفيان الثوري، حدثنا ابو الجارود الاعمى واسمه: زياد بن المنذر الهمداني، عن عطية العوفي، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما مؤمن اطعم مؤمنا على جوع اطعمه الله يوم القيامة من ثمار الجنة، وايما مؤمن سقى مؤمنا على ظمإ سقاه الله يوم القيامة من الرحيق المختوم، وايما مؤمن كسا مؤمنا على عري كساه الله من خضر الجنة " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وقد روي هذا عن عطية، عن ابي سعيد موقوفا، وهو اصح عندنا واشبه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَارُودِ الْأَعْمَى وَاسْمُهُ: زِيَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفًا، وَهُوَ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَأَشْبَهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن بندہ کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے «الرحيق المختوم»(مہر بند شراب) پلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی ننگے بدن والے مومن کو کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث عطیہ کے واسطے سے ابو سعید خدری سے موقوفا مروی ہے، اور ہمارے نزدیک یہی سند سب سے زیادہ اقرب اور صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 41 (1682) (تحفة الأشراف: 4201)، و مسند احمد (3/13) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، نیز زیاد بن منذر بقول ابن معین: کذاب ہے، اور ابوداود کی سند میں نبیح لین الحدیث اور ابو خالد دالانی مدلس کثیر الخطأ ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1913)، ضعيف أبي داود (300) // (371 / 1682) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2449) إسناده ضعيف عطية: ضعيف (تقدم:477)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دشمن کے حملہ سے ڈرا اور شروع رات ہی میں سفر میں نکل پڑا وہ منزل کو پہنچ گیا ۱؎، آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان بڑی قیمت والا ہے، آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان جنت ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن، غریب ہے، اسے ہم صرف ابونضر ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ ایک مثل ہے جو ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جنہوں نے آخرت کے راستہ کو اپنا رکھا ہے، اور اس پر گامزن ہیں، کیونکہ شیطان ایسے لوگوں کے بہکانے کے لیے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، اس لیے اس راہ پر چلنے والے اگر شروع ہی سے بیدار رہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عمل پر قائم رہے تو ایسے لوگ شیطان کے مکر اور اس کی چال سے محفوظ رہیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (954 و 2335)، المشكاة (5348 / التحقيق الثانى)
قال الشيخ زبير على زئي: (2450) إسناده ضعيف يزيد بن سنان: ضعيف (تقدم:1077)