(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عيينة بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من ذنب اجدر ان يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا مع ما يدخر له في الآخرة من البغي وقطيعة الرحم " , قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھا جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 51 (4902)، سنن ابن ماجہ/الزہد 23 (4211) (تحفة الأشراف: 11693)، و مسند احمد (5/38) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا ابن المبارك، عن المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن جده عبد الله بن عمرو، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خصلتان من كانتا فيه كتبه الله شاكرا صابرا، ومن لم تكونا فيه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا، من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى به، ومن نظر في دنياه إلى من هو دونه فحمد الله على ما فضله به عليه، كتبه الله شاكرا صابرا، ومن نظر في دينه إلى من هو دونه ونظر في دنياه إلى من هو فوقه فاسف على ما فاته منه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا "(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيهِ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا، مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ، وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ، كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا "
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پر نظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا، تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8778) (ضعیف) (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں، ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے، اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اگلی سند میں عن أبیہ کا ذکر ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفة 633، 1924)»
وضاحت: ۱؎: گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیئے، تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو، اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں، اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (633 و 1924) // ضعيف الجامع الصغير (2832) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2512) إسناده ضعيف المثني: ضعيف (تقدم:641)
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، ووكيع , عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انظروا إلى من هو اسفل منكم، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم، فإنه اجدر ان لا تزدروا نعمة الله عليكم " , هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ " , هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2963/9)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4142)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الرقاق 30 (6490)، وصحیح مسلم/الزہد (2963/8) (تحفة الأشراف: 12467، و12514)، و مسند احمد (2/254، 482) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال البصري، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري. ح وحدثنا هارون بن عبد الله البزاز، حدثنا سيار، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري المعنى واحد، عن ابي عثمان النهدي، عن حنظلة الاسيدي وكان من كتاب النبي صلى الله عليه وسلم: " انه مر بابي بكر وهو يبكي، فقال: ما لك يا حنظلة؟ قال: نافق حنظلة يا ابا بكر نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا إلى الازواج والضيعة نسينا كثيرا، قال: فوالله إنا لكذلك انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقنا فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما لك يا حنظلة؟ قال: نافق حنظلة يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا عافسنا الازواج والضيعة ونسينا كثيرا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو تدومون على الحال الذي تقومون بها من عندي لصافحتكم الملائكة في مجالسكم وفي طرقكم وعلى فرشكم، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة وساعة وساعة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2452، 2514 (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: 2526)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن شعبة، عن قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه " , قال: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مومن کامل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے، اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت، بددیانتی، جعل سازی، لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کرنا ہو گا، إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہو جائیں گی، ورنہ ذلت اور بداخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا ليث بن سعد، وابن لهيعة , عن قيس بن الحجاج، قال. ح وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا ابو الوليد، حدثنا ليث بن سعد، حدثني، قيس بن الحجاج , المعنى واحد , عن حنش الصنعاني، عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: يا غلام , " إني اعلمك كلمات: احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك إذا سالت فاسال الله وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على ان يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الاقلام وجفت الصحف " , قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي، قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ , الْمَعْنَى وَاحِدٌ , عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ , " إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5302)، ظلال الجنة (316 - 318)
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا المغيرة بن ابي قرة السدوسي، قال: سمعت انس بن مالك يقول: قال رجل: يا رسول الله , اعقلها واتوكل او اطلقها واتوكل قال: " اعقلها وتوكل " , قال عمرو بن علي: قال يحيى: وهذا عندي حديث منكر، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من حديث انس لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن عمرو بن امية الضمري، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ: " اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ " , قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ: قَالَ يَحْيَى: وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے باندھ دو، پھر توکل کرو“۔ عمرو بن علی الفلاس کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث انس کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ ۲- اسی طرح سے یہ حدیث عمرو بن امیہ ضمری کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى الانصاري، حدثنا عبد الله بن إدريس، حدثنا شعبة، عن بريد بن ابي مريم، عن ابي الحوراء السعدي، قال: قلت للحسن بن علي، ما حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دع ما يريبك إلى ما لا يريبك، فإن الصدق طمانينة، وإن الكذب ريبة " وفي الحديث قصة، قال: وابو الحوراء السعدي اسمه: ربيعة بن شيبان، قال: وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ " وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ: وَأَبُو الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ: رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوالحوراء شیبان سعدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی رضی الله عنہما سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز یاد کی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد کیا ہے کہ ”اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے، اور جھوٹ دل کو بے قرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے“۱؎، اور اس حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوالحوراء سعدی کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأشربة 50 (5714) (تحفة الأشراف: 3405)، و مسند احمد (1/200) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں سے اجتناب کرو، اور جس پر قلبی اطمینان ہو، اس پر عمل کرو، سچائی کو اپنا شعار بناؤ کیونکہ اس سے قلبی اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے، جب کہ جھوٹ سے دل بے قرار اور پریشان رہتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (12 و 2074)، الظلال (179)، الروض النضير (152)