(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، حدثنا قيس بن ابي حازم، قال: سمعت مستوردا اخا بني فهر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما الدنيا في الآخرة إلا مثل ما يجعل احدكم إصبعه في اليم فلينظر بماذا يرجع "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وإسماعيل بن ابي خالد يكنى ابا عبد الله، ووالد قيس ابو حازم اسمه عبد بن عوف، وهو من الصحابة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِهْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَاذَا يَرْجِعُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَوَالِدُ قَيْسٍ أَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَوْفٍ، وَهُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ.
مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ۳- قیس کے والد ابوحازم کا نام عبد بن عوف ہے اور یہ صحابی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفة الجنة 14 (2858)، سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4108) (تحفة الأشراف: 11255)، و مسند احمد (4/229، 230) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدر و قیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندر کے پانی کے درمیان تناسب ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2956)، سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4113) (تحفة الأشراف: 14055)، و مسند احمد (2/323، 389، 485) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا ابو نعيم، حدثنا عبادة بن مسلم، حدثنا يونس بن خباب، عن سعيد الطائي ابي البختري، انه قال: حدثني ابو كبشة الانماري، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ثلاثة اقسم عليهن واحدثكم حديثا فاحفظوه، قال: " ما نقص مال عبد من صدقة، ولا ظلم عبد مظلمة فصبر عليها إلا زاده الله عزا، ولا فتح عبد باب مسالة إلا فتح الله عليه باب فقر او كلمة نحوها ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) " واحدثكم حديثا فاحفظوه، قال: إنما الدنيا لاربعة نفر: عبد رزقه الله مالا وعلما فهو يتقي فيه ربه ويصل فيه رحمه ويعلم لله فيه حقا فهذا بافضل المنازل، وعبد رزقه الله علما ولم يرزقه مالا فهو صادق النية، يقول: لو ان لي مالا لعملت بعمل فلان فهو بنيته فاجرهما سواء، وعبد رزقه الله مالا ولم يرزقه علما فهو يخبط في ماله بغير علم لا يتقي فيه ربه ولا يصل فيه رحمه ولا يعلم لله فيه حقا فهذا باخبث المنازل، وعبد لم يرزقه الله مالا ولا علما، فهو يقول: لو ان لي مالا لعملت فيه بعمل فلان فهو بنيته فوزرهما سواء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ، عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيّ، أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: " مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) " وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو“، ”کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے)، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے (دوسری بات ہے)، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا)(یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: ”یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے ۱؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ۲؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد 26 (4228) (تحفة الأشراف: 12145) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔
۲؎: یعنی فریضہ زکاۃ کی ادائیگی کرتا ہے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے خرچ کرتا ہے اور اس میں سے عام صدقات و خیرات بھی کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4228)
قال الشيخ زبير على زئي: (2325) إسناده ضعيف يونس بن خباب رافضي ضعيف، ضعفه الجمھور وروي أحمد (230/4 ح 27 180) حديثاً آخر بمتن آخر و ظاھره الصحة ولكن أعله ابن حجر وغيره . والله أعلم، وحديث ابن ماجه (4228 صحيح) يغني عنه
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے ۱؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 29 (1645) (تحفة الأشراف: 9319)، و مسند احمد (1/389) (صحیح) ”بموت عاجل أو غني عاجل“) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن ابی داود 1452، الصحیحة 2887)»
وضاحت: ۱؎: یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اور لاچاری کا تذکرہ کر کے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہو گی، اور اگر وقتی طور پر پوری ہو بھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہو گا۔
۲؎: چونکہ اس نے صبر سے کام لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا، معلوم ہوا کہ حاجت و ضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ: " ... بموت عاجل أو غنى عاجل "، صحيح أبي داود (1452)، الصحيحة (2787)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن منصور، والاعمش، عن ابي وائل، قال: جاء معاوية إلى ابي هاشم بن عتبة وهو مريض يعوده، فقال: يا خال، ما يبكيك اوجع يشئزك ام حرص على الدنيا، قال: كل لا، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا لم آخذ به، قال: " إنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله "، واجدني اليوم قد جمعت، قال ابو عيسى: وقد روى زائدة، وعبيدة بن حميد، عن منصور، عن ابي وائل، عن سمرة بن سهم، قال: دخل معاوية على ابي هاشم، فذكر نحوه، وفي الباب عن بريدة الاسلمي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ مُعَاوِيَةُ إِلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ، فَقَالَ: يَا خَالُ، مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَى الدُّنْيَا، قَالَ: كُلٌّ لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا لَمْ آخُذْ بِهِ، قَالَ: " إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، وَأَجِدُنِي الْيَوْمَ قَدْ جَمَعْتُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى أَبِي هَاشِمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے؟ کسی درد سے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کر سکا۔ آپ نے فرمایا تھا: ”تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کر لیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی ۲- اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزینة 119 (5374)، سنن ابن ماجہ/الزہد 1 (4103) (تحفة الأشراف: 12178) و مسند احمد (5/290) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4103)
قال الشيخ زبير على زئي: (2327) إسناده ضعيف / جه 4103،ن 5374 أبو وائل رواه عن سمرة بن سھم وھو رجل مجھول (انظر تقريب التھذيب: 2631) و روي النسائي (الكبري 507/5 ح 9812) بسند حسن عن بريدة رضى الله عنه رفعه: ”يكفي أحدكم من الدنيا خادم و مركب“ وھو يغني عنه
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جائیداد ۱؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہو جائے گی“۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں ضیعہ آیا ہے، اس سے مراد ایسی جائدادیں ہیں جو غیر منقولہ ہوں مثلاً باغ، کھیت اور گاؤں وغیرہ، کچھ لوگ کہتے ہیں: اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن پر انسان کی معاشی زندگی کا دارومدار ہو، اگر یہ چیزیں انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کر دینے والی ہوں اور انسان آخرت کو بھول بیٹھے اور اس کے دل میں پورے طورے پر دنیا کی رغبت پیدا ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرے اور خشیت الٰہی کو اپنائے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا زيد بن حباب، عن معاوية بن صالح، عن عمرو بن قيس، عن عبد الله بن بسر، ان اعرابيا، قال: يا رسول الله، من خير الناس؟ قال: " من طال عمره وحسن عمله "، وفي الباب عن ابي هريرة، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ خَيْرُ النَّاسِ؟ قَالَ: " مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: عمر لمبی ہو گی اور عمل اچھا ہو گا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہو گا، «أعاذنا الله منه» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1836)، المشكاة (5285 / التحقيق الثانى)، الروض النضير (926)
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو“، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11689) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: ایک تاجر کی نگاہ میں راس المال اور سرمایہ کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت اور مقام وقت کا ہے، تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہیئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزاریں، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمند تاجر اکثر نفع کماتا ہے، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (2329)
قال الشيخ زبير على زئي: (2330) إسناده ضعيف على بن زيد بن جدعان ضعيف (تقدم: 589) وللحديث السابق (الأصل: 2329) يغني عنه
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4236)، ویأتي عند المؤلف في الدعوات 102 (3550) (تحفة الأشراف: 12876) (حسن صحیح) (یہ حدیث ”أعمار أمتي مابین …“ کے لفظ سے صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح بلفظ: " أعمار أمتى ما بين ... " وسيأتى برقم (3545) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا (2815 - 3802) //، ابن ماجة (4236)
(مرفوع) حدثنا عباس بن محمد الدوري، حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا عبد الله بن عمر العمري، عن سعد بن سعيد الانصاري، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقوم الساعة حتى يتقارب الزمان فتكون السنة كالشهر، والشهر كالجمعة، وتكون الجمعة كاليوم، ويكون اليوم كالساعة، وتكون الساعة كالضرمة بالنار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وسعد بن سعيد هو اخو يحيى بن سعيد الانصاري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ، وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا ۱؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی“۔
وضاحت: ۱؎: زمانہ قریب ہو جائے گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو اس کی برکتیں کم ہو جائیں گی اور فائدہ کی بجائے نقصانات زیادہ ہوں گے یا اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک و مشغول ہوں گے کہ انہیں دن اور رات کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہو گا (دوسرے ٹکڑے سے متعلق حدیث اگلے باب میں آ رہی ہے)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5448 / التحقيق الثانى)