سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
16. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ
باب: دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے۔
حدیث نمبر: 2324
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دنیا مومن کے لیے قید خانہ
(جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت
(باغ و بہار) ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2956)، سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4113) (تحفة الأشراف: 14055)، و مسند احمد (2/323، 389، 485) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2324 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2324
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قیدخانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے،
اس میں مومن شہوات وخواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ ومتقیانہ زندگی گزارتا ہے،
اس کے برعکس کافر ہرطرح سے آزاد رہ کر خواہشات وشہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قیدخانہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2324
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7417
´دنیا مومن کے لئے قید خانہ`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا قید خانہ ہے مومن کے لیے اور جنت ہے کافر کے لیے . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7417]
� تشریح:
مسلمان کیسے ہی عیش میں ہو مگر کافر کی طرح عیش نہیں کر سکتا۔ کافر کے نزدیک حرام حلال کچھ نہیں، عاقبت کی فکر اس کو نہیں، عبادات کی مشقت اس کو نہیں۔ مسلمان کو یہ سب محنتیں ہیں اس پر حشر کا، قبر کا خوف ہے۔ یہاں فکر معیشت ہے وہاں وحشت حشر۔ البتہ مسلمان جب دنیا سے خلاصی پا کر قبر اور حشر سے پار ہو کر جنت میں جائے گا اس وقت اطمینان حاصل ہو گا۔ اس لیے دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور جہاں تک ایمان قوی ہو گا وہیں تک دنیا کا رہنا برا معلوم ہو گا اور آخرت کا شوق زیادہ ہو گا۔
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7417
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4113
´دنیا کی مثال۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا مومن کا جیل اور کافر کی جنت ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4113]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح قیدی جیل میں بہت سے قوانین کا پابند ہوتا ہے۔
بلا اجازت وہ کچھ نہیں کرسکتا۔
اسی طرح مومن دنیا میں من مانی نہیں کرتا بلکہ ہر قدم پر اللہ کے احکام پر عمل کرتا ہےاس کے بدلے میں اسے جنت ملے گی۔
(2)
کافر دنیا میں آزادی کی یعنی بے قید زندگی گزارتا ہے۔
اس کے نتیجے میں اسے جہنم کا عذاب ملنے والا ہے۔
جہنم کے عذابوں کے مقابلے میں دنیا کی سخت سے سخت زندگی بھی جنت کے برابر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4113
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7417
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7417]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قید خانہ میں،
انسان اپنی زندگی میں آزاد نہیں ہوتا،
بلکہ ہر چیز میں جیل کے قوانین اور اس کے کارندوں کے حکم کا پابند ہوتاہے،
کھانے،
پینے،
اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے اور میل ملاپ میں،
وہ اپنی مرضی نہیں چلاسکتا،
بلکہ چارو ناچار،
ہر معاملے میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنا ہی پڑتی ہے،
اس طرح کوئی انسان جیل خانہ میں جی نہیں لگاتا اور اس کو اپنا گھر نہیں سمجھتا،
بلکہ ہر وقت اور ہر قیمت پر اس سے نکلنے کا خواہش مند اور خواہاں رہتا ہے،
جبکہ جنت میں کسی قانون کی پابندی نہیں رہے گی اور ہر جنتی اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے گا اور اس کی ہر آرزواور خواہش پوری ہوگی،
ہر چیز میں آزاد ہوگا اور وہ جنت کو اپنا مستقل گھر بنائے گا،
کبھی بھی اور کسی حالت میں بھی اس سے نکلنے کی خواہش اور تمنا نہیں کرے گا،
اس لیے دنیا میں ایک مومن کو حکم و قانون کی پابندی میں قید خانہ والی زندگی گزارنی چاہیے،
شریعت کے کسی حکم و قانون کی نافرمانی نہیں کرنا چاہیے اور کافر کی طرح شتر بے مہار ہوکر زندگی نہیں گزارنی چاہیے اور نہ دنیا میں جی لگانا اور اس کو مستقل ٹھکانا بنانا چاہیے،
اس لیے محدثین كتاب الزهد والرقاق میں انھی حدیثوں کو درج کرتے ہیں،
جن سے دل میں رقت و نرمی اور گداز کی کیفیت پیداہوتی ہے،
دنیا سے وابستگی کم ہوتی ہے،
آخرت کی فکر موجزن ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی فلاح کو ہی نصب العین قرار دیتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7417