(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف، ان عثمان بن عفان اشرف يوم الدار، فقال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: زنا بعد إحصان، او ارتداد بعد إسلام، او قتل نفس بغير حق، فقتل به "، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام، ولا ارتددت منذ بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا قتلت النفس التي حرم الله، فبم تقتلونني؟، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وعائشة، وابن عباس، وهذا حديث حسن، ورواه حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد فرفعه، وروى يحيى بن سعيد القطان، وغير واحد، عن يحيى بن سعيد هذا الحديث فاوقفوه ولم يرفعوه، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عثمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ، فَقَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوِ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَقُتِلَ بِهِ "، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ، وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي؟، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فَرَفَعَهُ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ فَأَوْقَفُوهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا.
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع، ۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 3 (4502)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533) (تحفة الأشراف: 9782)، و مسند احمد (1/61، 62، 65، 70) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن شبيب بن غرقدة، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع للناس: " اي يوم هذا؟ " قالوا: يوم الحج الاكبر، قال: " فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، الا لا يجني جان إلا على نفسه، الا لا يجني جان على ولده، ولا مولود على والده، الا وإن الشيطان قد ايس من ان يعبد في بلادكم هذه ابدا، ولكن ستكون له طاعة فيما تحتقرون من اعمالكم فسيرضى به "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكرة، وابن عباس، وجابر، وحذيم بن عمرو السعدي، وهذا حديث حسن صحيح، وروى زائدة، عن شبيب بن غرقدة نحوه، ولا نعرفه إلا من حديث شبيب بن غرقدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ: " أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ " قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلَادِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَى بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَحِذْيَمِ بْنِ عَمْرٍو السَّعْدِيِّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى زَائِدَةُ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ نَحْوَهُ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.
عمرو بن احوص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہو گی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہو گی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوبکرہ، ابن عباس، جابر، حذیم بن عمرو السعدی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 5 (3334)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبة (3087) (تحفة الأشراف: 10691) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے، کیونکہ اسی دن منی میں کفار و مشرکین سے برأت کا اعلان سنایا گیا، یا حج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال ادا کئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبر ہے، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا بندار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا ابن ابي ذئب، حدثنا عبد الله بن السائب بن يزيد، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ياخذ احدكم عصا اخيه لاعبا او جادا، فمن اخذ عصا اخيه فليردها إليه "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عمر، وسليمان بن صرد، وجعدة، وابي هريرة، وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن ابي ذئب، والسائب بن يزيد له صحبة قد سمع من النبي صلى الله عليه وسلم احاديث وهو غلام، وقبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن سبع سنين، ووالده يزيد بن السائب له احاديث، هو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، والسائب بن يزيد هو ابن اخت نمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيهِ لَاعِبًا أَوْ جَادًّا، فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدَ، وَجَعْدَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ لَهُ صُحْبَةٌ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَهُوَ غُلَامٌ، وَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ، وَوَالِدُهُ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ لَهُ أَحَادِيثُ، هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ هُوَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ.
یزید بن سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے، تو وہ اسے واپس کر دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سائب بن یزید کو شرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی حدیثیں سنی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، ان کے والد یزید بن سائب ۱؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں، سائب بن یزید نمر کے بہن کے بیٹے ہیں، ۳- اس باب میں ابن عمر، سلیمان بن صرد، جعدہ، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 93 (5003) (تحفة الأشراف: 11827)، و مسند احمد (4/221) (صحیح لغیرہ)»
وضاحت: ۱؎: ان کا نام یزید بن سعید ہے، انہیں یزید بن سائب رضی الله عنہ بھی کہا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (2948)، الإرواء (1518)
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد، قال: " حج يزيد مع النبي صلى الله عليه وسلم حجة الوداع، وانا ابن سبع سنين "، فقال علي بن المديني، عن يحيى بن سعيد القطان: كان محمد بن يوسف ثبتا صاحب حديث، وكان السائب بن يزيد جده، وكان محمد بن يوسف، يقول: حدثني السائب بن يزيد وهو جدي من قبل امي.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " حَجَّ يَزِيدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ "، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ثَبْتًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ جَدَّهُ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ وَهُوَ جَدِّي مِنْ قِبَلِ أُمِّي.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (میرے والد) یزید رضی الله عنہ نے حجۃ الوداع کیا، اس وقت میں سات سال کا تھا۔ یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں: محمد بن یوسف ثبت اور صاحب حدیث ہیں، سائب بن یزید ان کے نانا تھے، محمد بن یوسف کہتے تھے: مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے، اور وہ میرے نانا ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الصباح العطار الهاشمي، حدثنا محبوب بن الحسن، حدثنا خالد الحذاء، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من اشار على اخيه بحديدة لعنته الملائكة "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكرة، وعائشة، وجابر، وهذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، يستغرب من حديث خالد الحذاء، ورواه ايوب، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، نحوه، ولم يرفعه، وزاد فيه وإن كان اخاه لابيه وامه، قال: واخبرنا بذلك قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَزَادَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے، ۳- ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «وإن كان أخاه لأبيه وأمه»”اگرچہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو“، ۴- اس باب میں ابوبکرہ، ام المؤمنین عائشہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي البصري، حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتعاطى السيف مسلولا "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكرة، وهذا حديث حسن غريب من حديث حماد بن سلمة، وروى ابن لهيعة هذا الحديث، عن ابي الزبير، عن جابر، عن بنة الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث حماد بن سلمة عندي اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ بَنَّةَ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدِي أَصَحُّ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے اور دینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ نے یہ حدیث «عن أبي الزبير عن جابر عن بنة الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ۳- میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 73 (2588) (تحفة الأشراف: 2690)، و مسند احمد (3/300، 361) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ننگی تلوار سے بسا اوقات خود صاحب تلوار بھی زخمی ہو سکتا ہے، اور دوسروں کو اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3527 / التحقيق الثانى)
قال الشيخ زبير على زئي: (2163) إسناده ضعيف / د 2588
(مرفوع) حدثنا بندار، حدثنا معدي بن سليمان، حدثنا ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من صلى الصبح فهو في ذمة الله، فلا يتبعنكم الله بشيء من ذمته "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن جندب وابن عمر، وهذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا يُتْبِعَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنْ ذِمَّتِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ جُنْدَبٍ وَابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے فجر پڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے، پھر (اس بات کا خیال رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہو جائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں جندب اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14138) (صحیح) (سند میں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی فجر کی نماز کا خاص خیال رکھو اور اسے پابندی کے ساتھ ادا کرو، نہ ادا کرنے کی صورت میں رب العالمین کا وہ عہد جو تمہارے اور اس کے درمیان امان سے متعلق ہے ٹوٹ جائے گا۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا النضر بن إسماعيل ابو المغيرة، عن محمد بن سوقة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: خطبنا عمر بالجابية، فقال: يا ايها الناس، إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: " اوصيكم باصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب، حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد، الا لا يخلون رجل بامراة إلا كان ثالثهما الشيطان، عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين ابعد، من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه ابن المبارك، عن محمد بن سوقة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 27 (2363) (والنسائي في الکبری) و مسند احمد (1/18، 26) (تحفة الأشراف: 10530) (صحیح) (ویأتي الإشارة إلیہ برقم: 2303)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن نافع البصري، حدثني المعتمر بن سليمان، حدثنا سليمان المدني، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله لا يجمع امتي، او قال: امة محمد صلى الله عليه وسلم على ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ إلى النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وسليمان المدني هو عندي سليمان بن سفيان، وقد روى عنه ابو داود الطيالسي، وابو عامر العقدي، وغير واحد من اهل العلم، قال ابو عيسى: وتفسير الجماعة عند اهل العلم هم اهل الفقه والعلم والحديث، قال: وسمعت الجارود بن معاذ، يقول: سمعت علي بن الحسن، يقول: سالت عبد الله بن المبارك: من الجماعة؟ فقال: ابو بكر وعمر، قيل له: قد مات ابو بكر وعمر، قال: فلان وفلان، قيل له: قد مات فلان وفلان، فقال عبد الله بن المبارك، وابو حمزة السكري جماعة، قال ابو عيسى: وابو حمزة هو محمد بن ميمون، وكان شيخا صالحا، وإنما قال هذا في حياته عندنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ: مَنِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ”جماعت“ سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎، ۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7188) (صحیح) (سند میں ”سلیمان مدنی“ ضعیف ہیں، لیکن ”من شذ شذ إلى النار“ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم: 80)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ و منہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا، اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں، سراسر مغالطہٰ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون
قال الشيخ زبير على زئي: (2167) إسناده ضعيف سليمان بن سفيان المدني: ضعيف (تق: 2563) وقال ابن كثير الدمشقي: وقد ضعفه الأكثرون (تحفة الطالب 146/1 ح 36) وحديث الحاكم (116/1 ح 399 وسنده صحيح) يغني عنه