(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن شبيب بن غرقدة، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع للناس: " اي يوم هذا؟ " قالوا: يوم الحج الاكبر، قال: " فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، الا لا يجني جان إلا على نفسه، الا لا يجني جان على ولده، ولا مولود على والده، الا وإن الشيطان قد ايس من ان يعبد في بلادكم هذه ابدا، ولكن ستكون له طاعة فيما تحتقرون من اعمالكم فسيرضى به "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكرة، وابن عباس، وجابر، وحذيم بن عمرو السعدي، وهذا حديث حسن صحيح، وروى زائدة، عن شبيب بن غرقدة نحوه، ولا نعرفه إلا من حديث شبيب بن غرقدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ: " أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ " قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلَادِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَى بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَحِذْيَمِ بْنِ عَمْرٍو السَّعْدِيِّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى زَائِدَةُ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ نَحْوَهُ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.
عمرو بن احوص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہو گی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہو گی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوبکرہ، ابن عباس، جابر، حذیم بن عمرو السعدی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے، کیونکہ اسی دن منی میں کفار و مشرکین سے برأت کا اعلان سنایا گیا، یا حج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال ادا کئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبر ہے، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 5 (3334)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبة (3087) (تحفة الأشراف: 10691) (صحیح)»
دماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا لا يجني جان إلا على نفسه لا يجني جان على ولده لا مولود على والده الشيطان قد أيس من أن يعبد في بلادكم هذه أبدا لكن ستكون له طاعة فيما تحتقرون من أعمالكم فسيرضى به
دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا لا يجني جان إلا على نفسه لا يجني والد على ولده لا ولد على والده المسلم أخو المسلم فليس يحل لمسلم من أخيه شيء إلا ما أحل من نفسه كل ربا في الجاهلية موضوع لكم رءوس أموالكم لا تظلم
دماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذ لا يجني جان إلا على نفسه لا يجني والد على ولده لا مولود على والده الشيطان قد أيس أن يعبد في بلدكم هذا أبدا سيكون له طاعة في بعض ما تحتقرون من أعمالكم فيرضى
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2159
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے، کیوں کہ اسی دن منی میں کفارومشرکین سے برأت کا اعلان سنایا گیا، یا حج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال ادا کئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبرہے، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2159
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3055
´یوم النحر کے خطبہ کا بیان۔` عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا: ”لوگو! سنو، کون سا دن زیادہ تقدیس کا ہے“؟ آپ نے تین بار یہ فرمایا، لوگوں نے کہا: حج اکبر ۱؎ کا دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی، اور تمہارے اس مہینے کی، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے، جو کوئی جرم کرے گا، تو اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا، باپ کے جرم کا مواخذہ بیٹے سے، اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان اس بات سے ناامید ہو گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3055]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حج کا دن قابل احترام ہے۔
(2) بعض دن دوسروں سے افضل ہیں مثلاً عید کا دن اور حج کے ایام خاص طور پر عرفہ کا دن۔ ہفتےکے دنوں میں جمعے کا دن۔ مہینوں میں ماہ رمضان کے ایام۔ ان دنوں میں نیکی اور عبادت کی طرف زیادہ توجہ دینا اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا ان کے مقام واحترام کا تقاضہ ہے۔
(3) اہم مواقع پر عوام کی رہنمائی کے لیےمتعلقہ مسائل بیان کرنے چاہیئں۔ دوسرے اہم مسائل کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
(4) مومن کے لے مومن کی جان لینا ناجائز طور پر اس کا مال لے لینا یا اس کی بے عزتی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(5) کسی مجرم کے جرم کی سزااس کے بے گناہ رشتے داروں کو نہیں دی جا سکتی۔
(6) بعض اوقات پولیس کسی مفرور مجرم کو گرفتارنہیں کرسکتی تو اس کے گھر والوں پر تشدد کرتی ہے۔ تاکہ مجرم انھیں بچانے کے لیے اپنی گرفتاری دے دے شرعاً یہ ظلم ہے۔
(7) چھوٹے گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان سے بھی شیطان خوش ہوتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے بڑے گناہوں تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔
(8) عالم کو وعظ ونصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا عملی نمونہ بھی پیش کرنا چاہیے۔
(9) ہر قسم کا سود حرام ہے کیونکہ یہ ظلم ہےخواہ باہمی رضامندی سے لیا دیا جائے۔
(10) نبی اکرم ﷺنے دین کے احکام پوری طرح پہنچادیے ہیں۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں شریعت کی رہنمائی موجود نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3055
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3087
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: ”کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3087]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: یعنی معاف کر دیا گیا ہے، اب جاہلیت کے کسی خون کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3087