سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
14. باب مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي السَّمَرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ
14. باب: عشاء کے بعد بات چیت کرنے کی رخصت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Permitting Talk After Isha
حدیث نمبر: 169
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عمر بن الخطاب، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمر مع ابي بكر في الامر من امر المسلمين وانا معهما ". وفي الباب عن عبد الله بن عمرو , واوس بن حذيفة , وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: حديث عمر حسن، وقد روى هذا الحديث الحسن بن عبيد الله، عن إبراهيم، عن علقمة، عن رجل من جعفي يقال له: قيس او ابن قيس، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث في قصة طويلة، وقد اختلف اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم في السمر بعد صلاة العشاء الآخرة، فكره قوم منهم السمر بعد صلاة العشاء، ورخص بعضهم إذا كان في معنى العلم، وما لا بد منه من الحوائج، واكثر الحديث على الرخصة قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا سمر إلا لمصل او مسافر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَهُمَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَأَوْسِ بْنِ حُذَيْفَةَ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ يُقَالُ لَهُ: قَيْسٌ أَوْ ابْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي السَّمَرِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، فَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْهُمُ السَّمَرَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ فِي مَعْنَى الْعِلْمِ، وَمَا لَا بُدَّ مِنْهُ مِنَ الْحَوَائِجِ، وَأَكْثَرُ الْحَدِيثِ عَلَى الرُّخْصَةِ قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معاملات میں سے ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ رات میں گفتگو کرتے اور میں ان دونوں کے ساتھ ہوتا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم نے عشاء کے بعد بات کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ جانا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ یہ کوئی علمی گفتگو ہو یا کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو ۱؎ اور اکثر احادیث رخصت کے بیان میں ہیں، نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: بات صرف وہ کر سکتا ہے جو نماز عشاء کا منتظر ہو یا مسافر ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10611) وانظر: (حم (1/26، 34) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً کھیل کود، تاش بازی، شطرنج کھیلنا، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ دیکھنا، سننا تو یہ ویسے بھی حرام، لغو اور مکروہ کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2781)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
الأعمش وإبراهيم النخعي مدلسان (الأعمش: د 14، إبراهيم النخعي د 2235) وعنعنا .
وحديث " لاسمر إلا لمصل أو مسافر " أخرجه أحمد (1/412،463) وسنده ضعيف لإنقطاعه .
15. باب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ
15. باب: اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: Virtue Of Performing Salat at the Beginning Of Its Prescribed Time
حدیث نمبر: 170
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن عبد الله بن عمر العمري، عن القاسم بن غنام، عن عمته ام فروة، وكانت ممن بايعت النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: اي الاعمال افضل؟ قال: " الصلاة لاول وقتها ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ غَنَّامٍ، عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ فَرْوَةَ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " الصَّلَاةُ لِأَوَّلِ وَقْتِهَا ".
قاسم بن غنام کی پھوپھی ام فروہ رضی الله عنہا (جنہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اول وقت میں نماز پڑھنا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 9 (426)، (تحفة الأشراف: 1841) (صحیح) (سند میں قاسم مضطرب الحدیث ہیں، اور عبداللہ العمری ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ابن مسعود رضی الله عنہ کی اس معنی کی روایت صحیحین میں موجود ہے جو مؤلف کے یہاں رقم 173 پر آ رہی ہے۔)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (452)، المشكاة (607)
حدیث نمبر: 171
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن ابي طالب، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " يا علي ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والايم إذا وجدت لها كفئا ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 18 (1486)، (تحفة الأشراف: 10251)، وانظرحم (1/105)، (ویأتی عند المؤلف فی الجنائز برقم: 1075) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمر بن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیسا کہ مؤلف نے خود کتاب الجنائز میں تصریح کی ہے، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (605)، // ضعيف الجامع الصغير - بترتيبى - برقم (2563) ويأتى برقم (182 / 1087) //
حدیث نمبر: 172
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يعقوب بن الوليد المدني، عن عبد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الوقت الاول من الصلاة رضوان الله، والوقت الآخر عفو الله ". قال ابو عيسى: هذا غريب، وقد روى ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال: وفي الباب عن علي , وابن عمر , وعائشة , وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ام فروة لا يروى إلا من حديث عبد الله بن عمر العمري، وليس هو بالقوي عند اهل الحديث، واضطربوا عنه في هذا الحديث وهو صدوق، وقد تكلم فيه يحيى بن سعيد من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ رِضْوَانُ اللَّهِ، وَالْوَقْتُ الْآخِرُ عَفْوُ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ فَرْوَةَ لَا يُرْوَى إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَاضْطَرَبُوا عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَهُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ابن عباس رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اور اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر: ۱۷۰) عبداللہ بن عمر عمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکار ہیں اور وہ صدوق ہیں، یحییٰ بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7731) (موضوع) (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اور یعقوب بن ولید مدنی کو ائمہ نے کذاب کہا ہے)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، الإرواء (259)، المشكاة (606)، // ضعيف الجامع (6164) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جداً (موضوع)
يعقوب بن الوليد: كذبه أحمد وغيره (تق:7835)
حدیث نمبر: 173
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن ابي يعفور، عن الوليد بن العيزار، عن ابي عمرو الشيباني، ان رجلا، قال لابن مسعود: اي العمل افضل؟ قال: سالت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الصلاة على مواقيتها " , قلت: وماذا يا رسول الله؟ قال: " وبر الوالدين " , قلت: وماذا يا رسول الله؟ قال: " والجهاد في سبيل الله ". قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح، وقد روى المسعودي , وشعبة، وسليمان هو ابو إسحاق الشيباني وغير واحد، عن الوليد بن العيزار هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الصَّلَاةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا " , قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ " , قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى الْمَسْعُودِيُّ , وَشُعْبَةُ، وَسُلَيْمَانُ هُوَ أَبُو إِسْحَاق الشَّيْبَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ هَذَا الْحَدِيثَ.
ابوعمرو شیبانی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا: کون سا عمل سب سے اچھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ میں نے عرض کیا: اور کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا: (اس کے بعد) اور کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 5 (527)، والجہاد 1 (2782)، والأدب 1 (5970)، والتوحید 48 (7534)، صحیح مسلم/الإیمان 36 (85)، سنن النسائی/المواقیت 51 (611)، (تحفة الأشراف: 9232)، مسند احمد (1/409، 410، 418، 421، 444، 448، 451) ویأتی عند المؤلف برقم: 1898 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 174
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن إسحاق بن عمر، عن عائشة , قالت: " ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة لوقتها الآخر مرتين حتى قبضه الله ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وليس إسناده بمتصل، قال الشافعي: والوقت الاول من الصلاة افضل , ومما يدل على فضل اول الوقت على آخره اختيار النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر , وعمر، فلم يكونوا يختارون إلا ما هو افضل ولم يكونوا يدعون الفضل، وكانوا يصلون في اول الوقت. قال: حدثنا بذلك ابو الوليد المكي، عن الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً لِوَقْتِهَا الْآخِرِ مَرَّتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ , وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى فَضْلِ أَوَّلِ الْوَقْتِ عَلَى آخِرِهِ اخْتِيَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَخْتَارُونَ إِلَّا مَا هُوَ أَفْضَلُ وَلَمْ يَكُونُوا يَدَعُونَ الْفَضْلَ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں دو بار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے،
۲- شافعی کہتے ہیں: نماز کا اول وقت افضل ہے اور جو چیزیں اول وقت کی افضیلت پر دلالت کرتی ہیں من جملہ انہیں میں سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، اور عمر رضی الله عنہما کا اسے پسند فرمانا ہے۔ یہ لوگ اسی چیز کو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیز کو نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہ لوگ نماز کو اول وقت میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15922) (حسن) (سند میں اسحاق بن عمر ضعیف ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (608)
16. باب مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ عَنْ وَقْتِ، صَلاَةِ الْعَصْرِ
16. باب: عصر کے وقت کو بھول جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Forgetting The rime Of Asr
حدیث نمبر: 175
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الذي تفوته صلاة العصر فكانما وتر اهله وماله ". وفي الباب عن بريدة , ونوفل بن معاوية. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حسن صحيح، وقد رواه الزهري ايضا، عن سالم، عن ابيه ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ , وَنَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے عصر فوت ہو گئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بریدہ اور نوفل بن معاویہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت14 (552)، والمناقب 25 (3602)، صحیح مسلم/المساجد 35 (626)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (414)، سنن النسائی/الصلاة 17 (479)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (685)، (تحفة الأشراف: 8301)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 5 (21)، مسند احمد (2/13، 27، 48، 64، 75، 76، 102، 134، 145، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 27 (1267) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (685)
17. باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الصَّلاَةِ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ
17. باب: جب امام نماز دیر سے پڑھے تو اسے جلد پڑھ لینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Hastening The Salat When The Imam Delays It
حدیث نمبر: 176
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن موسى البصري، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ابي عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا ابا ذر امراء يكونون بعدي يميتون الصلاة، فصل الصلاة لوقتها، فإن صليت لوقتها كانت لك نافلة وإلا كنت قد احرزت صلاتك ". وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وعبادة بن الصامت. قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم يستحبون ان يصلي الرجل الصلاة لميقاتها إذا اخرها الإمام، ثم يصلي مع الإمام، والصلاة الاولى هي المكتوبة عند اكثر اهل العلم، وابو عمران الجوني اسمه: عبد الملك بن حبيب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ، فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ صُلِّيَتْ لِوَقْتِهَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً وَإِلَّا كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِهَا إِذَا أَخَّرَهَا الْإِمَامُ، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الْإِمَامِ، وَالصَّلَاةُ الْأُولَى هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے ۱؎، تو تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲؎ نماز اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی نماز تمہارے لیے نفل ہو گی، ورنہ تم نے اپنی نماز محفوظ کر ہی لی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۳- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی نماز اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی نماز ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہو گی ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، سنن ابی داود/ الصلاة 10 (431)، سنن النسائی/الإمامة 2 (779)، و55 (860)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 150 (1256)، (تحفة الأشراف: 11950)، مسند احمد (5/168، 169)، سنن الدارمی/الصلاة 26 (1264) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اسے دیر کر کے پڑھیں گے۔
۲؎: یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
۳؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب نماز کو اس کے اول وقت سے دیر کر کے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اول وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداؤد کی روایت میں «صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة» تم نماز وقت پر پڑھ لو پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی، ظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی، بعضوں نے اسے ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1256)
18. باب مَا جَاءَ فِي النَّوْمِ عَنِ الصَّلاَةِ
18. باب: نماز سے سو جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Sleeping Past The Salat
حدیث نمبر: 177
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح الانصاري، عن ابي قتادة، قال: ذكروا للنبي صلى الله عليه وسلم نومهم عن الصلاة، فقال: " إنه ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا نسي احدكم صلاة او نام عنها، فليصلها إذا ذكرها ". وفي الباب عن ابن مسعود , وابي مريم , وعمران بن حصين , وجبير بن مطعم , وابي جحيفة , وابي سعيد , وعمرو بن امية الضمري , وذي مخبر ويقال: ذي مخمر وهو ابن اخي النجاشي. قال ابو عيسى: وحديث ابي قتادة حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الرجل ينام عن الصلاة او ينساها، فيستيقظ او يذكر وهو في غير وقت صلاة عند طلوع الشمس او عند غروبها، فقال: بعضهم يصليها إذا استيقظ او ذكر، وإن كان عند طلوع الشمس او عند غروبها، وهو قول احمد , وإسحاق , والشافعي , ومالك، وقال بعضهم: لا يصلي حتى تطلع الشمس او تغرب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: ذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَوْمَهُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَأَبِي مَرْيَمَ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , وَأَبِي جُحَيْفَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ , وَذِي مِخْبَرٍ وَيُقَالُ: ذِي مِخْمَرٍ وَهُوَ ابْنُ أَخِي النَّجَاشِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاهَا، فَيَسْتَيْقِظُ أَوْ يَذْكُرُ وَهُوَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا، فَقَالَ: بَعْضُهُمْ يُصَلِّيهَا إِذَا اسْتَيْقَظَ أَوْ ذَكَرَ، وَإِنْ كَانَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَالشَّافِعِيِّ , وَمَالِكٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبَ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نماز سے اپنے سو جانے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: سو جانے میں قصور اور کمی نہیں۔ قصور اور کمی تو جاگنے میں ہے، (کہ جاگتا رہے اور نہ پڑھے) لہٰذا تم میں سے کوئی جب نماز بھول جائے، یا نماز سے سو جائے، تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، ابومریم، عمران بن حصین، جبیر بن مطعم، ابوجحیفہ، ابوسعید، عمرو بن امیہ ضمری اور ذومخمر (جنہیں ذومخبر بھی کہا جاتا ہے، اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو نماز سے سو جائے یا اسے بھول جائے اور ایسے وقت میں جاگے یا اسے یاد آئے جو نماز کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یا یاد آئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کا وقت ہو، یہی احمد، اسحاق بن راہویہ، شافعی اور مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔ پہلا قول ہی راجح ہے، کیونکہ یہ نماز سبب والی (قضاء) ہے اور سبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 55 (681)، (في سیاق طویل)، سنن ابی داود/ الصلاة 11 (437)، سنن النسائی/المواقیت 53 (616)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 10 (698)، (تحفة الأشراف: 12085)، مسند احمد (5/305) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (698)
19. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنْسَى الصَّلاَةَ
19. باب: آدمی نماز بھول جائے تو کیا کرے؟
Chapter: Been Related About A Man Who Forgets A Salat
حدیث نمبر: 178
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , وبشر بن معاذ , قالا: حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها ". وفي الباب عن سمرة , وابي قتادة. قال ابو عيسى: حديث انس حسن صحيح، ويروى عن علي بن ابي طالب، انه قال في الرجل ينسى الصلاة، قال: يصليها متى ما ذكرها في وقت او في غير وقت، وهو قول الشافعي , واحمد بن حنبل , وإسحاق، ويروى عن ابي بكرة انه نام عن صلاة العصر، فاستيقظ عند غروب الشمس، فلم يصل حتى غربت الشمس، وقد ذهب قوم من اهل الكوفة إلى هذا، واما اصحابنا فذهبوا إلى قول علي بن ابي طالب رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ , وَأَبِي قَتَادَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَنْسَى الصَّلَاةَ، قَالَ: يُصَلِّيهَا مَتَى مَا ذَكَرَهَا فِي وَقْتٍ أَوْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ , وَإِسْحَاق، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهُ نَامَ عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ، فَاسْتَيْقَظَ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا، وَأَمَّا أَصْحَابُنَا فَذَهَبُوا إِلَى قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز بھول جائے تو چاہیئے کہ جب یاد آئے پڑھ لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سمرہ اور ابوقتادہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں جو نماز بھول جائے کہا کہ وہ پڑھ لے جب بھی اسے یاد آئے خواہ وقت ہو یا نہ ہو۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابوبکرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ عصر میں سو گئے اور سورج ڈوبنے کے وقت اٹھے، تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی جب تک کہ سورج ڈوب نہیں گیا۔ اہل کوفہ کے کچھ لوگ اسی طرف گئے ہیں۔ رہے ہمارے اصحاب یعنی محدثین تو وہ علی بن ابی طالب رضی الله عنہ ہی کے قول کی طرف گئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 37 (597)، صحیح مسلم/المساجد 55 (684)، سنن ابی داود/ الصلاة 11 (442)، سنن النسائی/المواقیت 52 (614) سنن ابن ماجہ/الصلاة 10 (696)، (تحفة الأشراف: 1430، وکذا: 1299) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (696)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.