سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
The Book of Drinks
49. بَابُ: ذِكْرِ مَا أَعَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِشَارِبِ الْمُسْكِرِ
49. باب: نشہ لانے والی چیزیں پینے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے تیار کردہ عذاب، ذلت و رسوائی کا ذکر۔
Chapter: Humiliation and Painful Torment that Allah, the Mighty and Sublime, has Prepared for the
حدیث نمبر: 5712
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , قال: حدثنا عبد العزيز , عن عمارة بن غزية , عن ابي الزبير , عن جابر , ان رجلا من جيشان , وجيشان من اليمن قدم , فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شراب يشربونه بارضهم من الذرة , يقال له: المزر , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسكر هو؟" , قال: نعم , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كل مسكر حرام , إن الله عز وجل عهد لمن شرب المسكر ان يسقيه من طينة الخبال" , قالوا: يا رسول الله , وما طينة الخبال؟ قال:" عرق اهل النار" , او قال:" عصارة اهل النار".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ جَيْشَانَ , وَجَيْشَانُ مِنْ الْيَمَنِ قَدِمَ , فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرَابٍ يَشْرَبُونَهُ بِأَرْضِهِمْ مِنَ الذُّرَةِ , يُقَالُ لَهُ: الْمِزْرُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمُسْكِرٌ هُوَ؟" , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ , إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَهِدَ لِمَنْ شَرِبَ الْمُسْكِرَ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا طِينَةُ الْخَبَالِ؟ قَالَ:" عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ" , أَوْ قَالَ:" عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جیشان کا ایک شخص (جیشان یمن کا ایک قبیلہ ہے) آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکئی کے بنے اس مشروب کے بارے میں پوچھا جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے اور اسے «مزر» کہتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہ نشہ لاتا ہے؟ وہ بولا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ طے کر دیا ہے کہ جو نشہ لانے والی چیز پیئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے «طینۃ الخبال» پلائے گا، لوگوں نے عرض کیا: یہ «طینۃ الخبال» کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جہنمیوں کا پسینہ، یا فرمایا: جہنمیوں کا مواد۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 7 (2002)، (تحفة الأشراف: 2891)، مسند احمد (3/361) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
50. بَابُ: الْحَثِّ عَلَى تَرْكِ الشُّبُهَاتِ
50. باب: شبہ والی چیزیں چھوڑنے کی ترغیب کا بیان۔
Chapter: Encouragement to Avoid Doubtful Matters
حدیث نمبر: 5713
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا حميد بن مسعدة , عن يزيد وهو ابن زريع , عن ابن عون , عن الشعبي , عن النعمان بن بشير , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الحلال بين وإن الحرام بين , وإن بين ذلك امورا مشتبهات" , وربما قال:" وإن بين ذلك امورا مشتبهة , وساضرب في ذلك مثلا إن الله عز وجل حمى حمى , وإن حمى الله ما حرم , وإنه من يرع حول الحمى يوشك ان يخالط الحمى" , وربما قال:" يوشك ان يرتع وإن من خالط الريبة يوشك ان يجسر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ , عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ , وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَاتٍ" , وَرُبَّمَا قَالَ:" وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً , وَسَأَضْرِبُ فِي ذَلِكَ مَثَلًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَمَى حِمًى , وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَا حَرَّمَ , وَإِنَّهُ مَنْ يَرْعَ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَى" , وَرُبَّمَا قَالَ:" يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ وَإِنَّ مَنْ خَالَطَ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام (بھی) واضح ہے، ان کے درمیان شبہ والی کچھ چیزیں ہیں ۱؎، میں تم سے ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی باڑھ لگائی ہے (اور اللہ کی چراگاہ محرمات ہیں) جو بھی اس باڑھ کے اردگرد چرائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ چراگاہ میں بھی چرا ڈالے۔ (کبھی «يوشك أن يخالط الحمى» کے بجائے «يوشك أن يرتع» کہا) (معنی ایک ہے الفاظ کا فرق ہے)، اسی طرح جو شبہ کا کام کرے گا ممکن ہے وہ آگے (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔ ۱؎: کبھی «إن بين ذلك أمور مشتبهات» کے بجائے یوں کہا: «إن بين ذلك أمورا مشتبهة» مفہوم ایک ہی ہے بس لفظ کے واحد و جمع ہونے کا فرق ہے، گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ، پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں، جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ، اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہو سکتا ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے۔ کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جسارت کر سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4458 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 5714
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن ابان , قال: حدثنا عبد الله بن إدريس , قال: انبانا شعبة , عن بريد بن ابي مريم , عن ابي الحوراء السعدي , قال: قلت للحسن بن علي رضي الله عنهما: ما حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: حفظت منه:" دع ما يريبك إلى ما لا يريبك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ , عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْديِّ , قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: حَفِظْتُ مِنْهُ:" دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ".
ابوالحوراء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات یاد ہے؟ تو انہوں نے کہا: مجھے آپ کی یہ بات یاد ہے: جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور وہ کرو جس میں شک نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القیامة 60 (2518)، (تحفة الأشراف: 3405)، مسند احمد (1/200) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
51. بَابُ: الْكَرَاهِيَةِ فِي بَيْعِ الزَّبِيبِ لِمَنْ يَتَّخِذُهُ نَبِيذًا
51. باب: نبیذ بنانے والے کے ہاتھ انگور بیچنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: It is Disliked to Sell Raisins to One Who Will Use them to Make Nabidh
حدیث نمبر: 5715
Save to word اعراب
(مقطوع) اخبرنا الجارود بن معاذ هو باوردي , قال: حدثنا ابو سفيان محمد بن حميد , عن معمر , عن ابن طاوس , عن ابيه:" انه كان يكره ان يبيع الزبيب لمن يتخذه نبيذا".
(مقطوع) أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ هُوَ بَاوَرْدِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ , عَنْ أَبِيهِ:" أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ الزَّبِيبَ لِمَنْ يَتَّخِذُهُ نَبِيذًا".
طاؤس سے روایت ہے کہ وہ ناپسند کرتے تھے کہ انگور کسی ایسے کے ہاتھ بیچا جائے جو اس کی نبیذ بناتا ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18839) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: مراد نشے والی نبیذ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
52. بَابُ: الْكَرَاهِيَةِ فِي بَيْعِ الْعَصِيرِ .
52. باب: انگور کا رس بیچنے کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: It is Disliked to Sell Juice
حدیث نمبر: 5716
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن سفيان بن دينار , عن مصعب بن سعد , قال: كان لسعد كروم واعناب كثيرة , وكان له فيها امين فحملت عنبا كثيرا , فكتب إليه: إني اخاف على الاعناب الضيعة , فإن رايت ان اعصره عصرته , فكتب إليه سعد:" إذا جاءك كتابي هذا فاعتزل ضيعتي , فوالله لا ائتمنك على شيء بعده ابدا , فعزله عن ضيعته".
(موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ سُفْيَانَ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: كَانَ لِسَعْدٍ كُرُومٌ وَأَعْنَابٌ كَثِيرَةٌ , وَكَانَ لَهُ فِيهَا أَمِينٌ فَحَمَلَتْ عِنَبًا كَثِيرًا , فَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنِّي أَخَافُ عَلَى الْأَعْنَابِ الضَّيْعَةَ , فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ أَعْصُرَهُ عَصَرْتُهُ , فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَعْدٌ:" إِذَا جَاءَكَ كِتَابِي هَذَا فَاعْتَزِلْ ضَيْعَتِي , فَوَاللَّهِ لَا أَئْتَمِنُكَ عَلَى شَيْءٍ بَعْدَهُ أَبَدًا , فَعَزَلَهُ عَنْ ضَيْعَتِهِ".
مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد کے انگور کے باغ تھے اور ان میں بہت انگور ہوتے تھے۔ اس (باغ) میں ان کی طرف سے ایک نگراں رہتا تھا، ایک مرتبہ باغ میں بکثرت انگور لگے، نگراں نے انہیں لکھا: مجھے انگوروں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں ان کا رس نکال لوں؟، تو سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لکھا: جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو تم میرے اس ذریعہ معاش (باغ) کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم! اس کے بعد تم پر کسی چیز کا اعتبار نہیں کروں گا، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے باغ سے ہٹا دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3942) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: نگراں کا مقصد تھا کہ رس نکال کر بیچ دوں، تو شاید اس وقت زیادہ تر خریدنے والے اس رس سے شراب بناتے ہوں گے، اس لیے سعد رضی اللہ عنہ نے جوس نکال کر بیچنے کو ناپسند کیا، ورنہ صرف رس میں نشہ نہ ہو تو پیا جا سکتا ہے، اور اس کو خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 5717
Save to word اعراب
(مقطوع) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن هارون بن إبراهيم , عن ابن سيرين , قال:" بعه عصيرا ممن يتخذه طلاء , ولا يتخذه خمرا".
(مقطوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ هَارُونَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ ابْنِ سِيرِينَ , قَالَ:" بِعْهُ عَصِيرًا مِمَّنْ يَتَّخِذُهُ طِلَاءً , وَلَا يَتَّخِذُهُ خَمْرًا".
ابن سیرین کہتے ہیں کہ رس اس کے ہاتھ بیچو جو اس کا طلاء بنائے اور شراب نہ بنائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19305) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
53. بَابُ: ذِكْرِ مَا يَجُوزُ شُرْبُهُ مِنَ الطِّلاَءِ وَمَا لاَ يَجُوزُ
53. باب: کون سا طلاء پینا جائز ہے اور کون سا ناجائز؟
Chapter: What Kind of Thickened Grape Juice is Permissible to Drink and What Kind is Not Permitte
حدیث نمبر: 5718
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى , قال: حدثنا المعتمر , قال: سمعت منصورا , عن إبراهيم , عن نباتة , عن سويد بن غفلة , قال: كتب عمر بن الخطاب إلى بعض عماله:" ان ارزق المسلمين من الطلاء ما ذهب ثلثاه وبقي ثلثه".
(موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ , قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورًا , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ نُبَاتَةَ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ , قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى بَعْضِ عُمَّالِهِ:" أَنِ ارْزُقْ الْمُسْلِمِينَ مِنَ الطِّلَاءِ مَا ذَهَبَ ثُلُثَاهُ وَبَقِيَ ثُلُثُهُ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی عامل (گورنر) کو لکھا: مسلمانوں کو وہ طلاء پینے دو جس کے دو حصے جل گئے ہوں اور ایک حصہ باقی ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10461) (حسن، صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: انگور کا رس دو تہائی جل گیا ہو اور ایک تہائی رہ جائے تو اس کو طلا کہتے ہیں، یہ حلال ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، إبراهيم النخعي مدلس وعنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
حدیث نمبر: 5719
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن سليمان التيمي , عن ابي مجلز , عن عامر بن عبد الله , انه قال: قرات كتاب عمر بن الخطاب إلى ابي موسى:" اما بعد , فإنها قدمت علي عير من الشام تحمل شرابا غليظا اسود كطلاء الإبل , وإني سالتهم على كم يطبخونه؟ فاخبروني انهم يطبخونه على الثلثين , ذهب ثلثاه الاخبثان ثلث ببغيه , وثلث بريحه , فمر من قبلك يشربونه".
(موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ , عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ قَالَ: قَرَأْتُ كِتَابَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِلَى أَبِي مُوسَى:" أَمَّا بَعْدُ , فَإِنَّهَا قَدِمَتْ عَلَيَّ عِيرٌ مِنْ الشَّامِ تَحْمِلُ شَرَابًا غَلِيظًا أَسْوَدَ كَطِلَاءِ الْإِبِلِ , وَإِنِّي سَأَلْتُهُمْ عَلَى كَمْ يَطْبُخُونَهُ؟ فَأَخْبَرُونِي أَنَّهُمْ يَطْبُخُونَهُ عَلَى الثُّلُثَيْنِ , ذَهَبَ ثُلُثَاهُ الْأَخْبَثَانِ ثُلُثٌ بِبَغْيِهِ , وَثُلُثٌ بِرِيحِهِ , فَمُرْ مَنْ قِبَلَكَ يَشْرَبُونَهُ".
عامر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خط پڑھا: امابعد، میرے پاس شام کا ایک قافلہ آیا، ان کے پاس ایک مشروب تھا جو گاڑھا اور کالا تھا جیسے اونٹ کا طلاء۔ میں نے ان سے پوچھا: وہ اسے کتنا پکاتے ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا: وہ اسے دو تہائی پکاتے ہیں۔ اس کے دو خراب حصے جل کر ختم ہو جاتے ہیں، ایک تہائی تو شرارت (نشہ) والا اور دوسرا تہائی اس کی بدبو والا۔ لہٰذا تم اپنے ملک کے لوگوں کو اس کے پینے کی اجازت دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10478) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ پکانے پر انگور کے رس کی تین حالتیں ہیں: پہلی حالت یہ ہے کہ وہ نشہ لانے والا اور تیز ہوتا ہے، دوسری حالت یہ ہے کہ وہ بدبودار ہوتا ہے اور تیسری حالت یہ ہے کہ وہ عمدہ اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، عامر بن عبد الله: مجهول رأي كتاب عمر بن الخطاب (تقريب: 3102) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 368
حدیث نمبر: 5720
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن هشام , عن ابن سيرين , ان عبد الله بن يزيد الخطمي , قال: كتب إلينا عمر بن الخطاب رضي الله عنه:" اما بعد , فاطبخوا شرابكم حتى يذهب منه نصيب الشيطان , فإن له اثنين ولكم واحد".
(موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ ابْنِ سِيرِينَ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الْخَطْمِيَّ , قَالَ: كَتَبَ إِلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَمَّا بَعْدُ , فَاطْبُخُوا شَرَابَكُمْ حَتَّى يَذْهَبَ مِنْهُ نَصِيبُ الشَّيْطَانِ , فَإِنَّ لَهُ اثْنَيْنِ وَلَكُمْ وَاحِدٌ".
عبداللہ بن یزید خطمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا: امابعد، اپنے مشروبات کو اس قدر پکاؤ کہ اس میں سے شیطانی حصہ نکل جائے ۱؎، کیونکہ اس کے اس میں دو حصے ہیں اور تمہارا ایک۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10588) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شیطانی حصہ سے روایت نمبر ۵۷۲۹ میں مذکور واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، هشام بن حسان مدلس وعنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 368
حدیث نمبر: 5721
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن جرير , عن مغيرة , عن الشعبي , قال: كان علي رضي الله عنه" يرزق الناس الطلاء يقع فيه الذباب , ولا يستطيع ان يخرج منه".
(موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ جَرِيرٍ , عَنْ مُغِيرَةَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" يَرْزُقُ النَّاسَ الطِّلَاءَ يَقَعُ فِيهِ الذُّبَابُ , وَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهُ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو اتنا گاڑھا طلاء پلاتے کہ اگر اس میں مکھی گر جائے تو وہ اس میں سے نکل نہ سکے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10151) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، مغيرة بن مقسم عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 368

Previous    14    15    16    17    18    19    20    21    22    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.